مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3500.
حضرت عبداللہ ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: گویا میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ انبیاء ؑ میں سے کسی ایک نبی کا حال بیان کررہے تھے۔ انھیں ان کی قوم نے اس قدر زد و کوب کیا کہ انھیں خون آلود کردیامگر وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور کہتے جاتے تھے: ’’اےاللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی بنی اسرائیل کے نبی کا ہے لیکن امام مسلم ؒنے اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا یہ واقعہ ہے گویا آپ اس واقعے کے خود ہی بیان کرنے والے اور خود ہی صاحب واقعہ ہیں غزوہ احد کے وقت جب کفار مکہ نے آپ کا چہرہ خون آلود کردیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا اور اس کے اگلے دانت شہید کردیے جبکہ وہ انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ’’آپ کا اس بات میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہےتو انھیں معاف کردے چاہے تو سزا دے۔ وہ بہر حال ظالم تو ہیں ہی۔‘‘ (آل عمران:128/3۔ و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4645۔1791) امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی گزشتہ نبی کا واقعہ بیان کیا ہے اگرچہ غزوہ احدکے موقع پر آپ کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔ (فتح الباري:637/6) 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ پر گالیاں سننا اور ماریں کھانا انبیاء کی سنت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3477
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3477
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3477
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت بنی اسرائیل کے عجیب و غریب واقعات بیان ہوں گے۔گویا یہ پچھلے عنوان کا تتمہ ہے۔
حضرت عبداللہ ؓہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: گویا میں نبی کریم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ انبیاء ؑ میں سے کسی ایک نبی کا حال بیان کررہے تھے۔ انھیں ان کی قوم نے اس قدر زد و کوب کیا کہ انھیں خون آلود کردیامگر وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور کہتے جاتے تھے: ’’اےاللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ لاعلم ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی بنی اسرائیل کے نبی کا ہے لیکن امام مسلم ؒنے اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا یہ واقعہ ہے گویا آپ اس واقعے کے خود ہی بیان کرنے والے اور خود ہی صاحب واقعہ ہیں غزوہ احد کے وقت جب کفار مکہ نے آپ کا چہرہ خون آلود کردیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا اور اس کے اگلے دانت شہید کردیے جبکہ وہ انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ’’آپ کا اس بات میں کوئی اختیار نہیں اللہ چاہےتو انھیں معاف کردے چاہے تو سزا دے۔ وہ بہر حال ظالم تو ہیں ہی۔‘‘ (آل عمران:128/3۔ و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4645۔1791) امام نووی ؒ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی گزشتہ نبی کا واقعہ بیان کیا ہے اگرچہ غزوہ احدکے موقع پر آپ کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔ (فتح الباري:637/6) 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ پر گالیاں سننا اور ماریں کھانا انبیاء کی سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمروبن حفص نے بیا ن کیا، کہا ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نےبیا ن کیا، کہا ہم سے اعمش ہےبیان کیا، کہاکہ مجھ سےشقیق بن سلمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓنےکہا میں گویا نبی کریمﷺ کو اس وقت دیکھ رہاہوں۔ آپ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا واقعہ بیان کررہےتھے کہ ان کی قوم نے انہیں مارا اور خون آلود کردیا۔ لیکن وہ نبی خون صاف کرتے جاتے اور یہ دعا کرتے کہ ’’اے اللہ میری قوم کی مغفرت فرما۔ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔،،
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں کہ یہ حضرت نوح ؑ کاواقعہ ہےمگر اس صورت میں حضرت امام بخاری اس حدیث کو بنی اسرائیل کےباب میں نہ لاتے تو ظاہر ہےکہ یہ بنی اسرائیل کےکسی پغمبرکا ذکر ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اس حدیث سےنصیحت لیں، خصوصا عالموں اورمولویوں کوجو دین کی باتیں بیان کرنےمیں ڈرتے ہیں حالانکہ اللہ کی راہ میں لوگوں کی طرف سےتکالیف برداشت کرنا پیغمبروں کی میراث ہے۔حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَقَدْ ذَكَرَ مُسْلِمٌ بَعْدَ تَخْرِيجِ هَذَا الْحَدِيثِ حَدِيثَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي قِصَّةِ أُحُدٍ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ دَمَّوْا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمر شَيْء وَمِنْ ثَمَّ قَالَ الْقُرْطُبِيُّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْحَاكِي وَالْمَحْكِيُّ كمَا سَيَأْتِي وَأَمَّا النَّوَوِيُّ فَقَالَ هَذَا النَّبِيُّ الَّذِي جَرَى لَهُ مَا حَكَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُتَقَدِّمِينَ وَقَدْ جَرَى لِنَبِيِّنَا نَحْوُ ذَلِكَ يَوْمَ أُحُدٍ۔ (فتح الباري)یعنی امام مسلم ؒ نے اس حدیث کی تخریج کےبعد لکھا ہے کہ واقعہ احد پرجب كہ آپ کاچہرہ مبارک خون آلود ہوگیا تھا ،آپ نےفرمایا تھا کہ وہ قوم کیسے فلاں پائے گی جس نےاپنے نبی کاچہرہ خون آلود کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ہمارے نبی ! آپ کو اس بارے میں مختار نہیں بنایا گیا یعنی قریب ہےکہ یہی لوگ ہدایت پاجائیں (جیسا کہ بعد میں ہوا) اس جگہ قرطبی ؒ نےکہا کہ اس واقعہ کے حاکی اور محکی خود آنحضرتﷺ ہی ہیں گویا آپ اپنے ہی متعلق یہ حکایت نقل فرمارہے ہیں ۔امام نووی نےکہاکہ آپ نے یہ کسی گزشتہ نبی ہی کاحکایت نقل فرمائی ہےااورہمارے نبی محترمﷺ کےساتھ بھی جنگ احد میں یہی ماجرا گزرا۔ بہرحال اس حدیث سےبہت سےایمان افروز نتائج نکلتے ہیں۔ مردان راہ کایہی طریقہ ہےکہ وہ جانی دشمنوں کوبھی دعائے خیرہی فرمایا کرتےہیں۔ سچ ہے ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾(حم سجدہ:35)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): As if I saw the Prophet (ﷺ) talking about one of the prophets whose nation had beaten him and caused him to bleed, while he was cleaning the blood off his face and saying, "O Allah! Forgive my nation, for they have no knowledge."