قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: کِتَابُ مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ (بَابُ المِعْرَاجِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3887. حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الْجَارُودُ هُوَ الْبُرَاقُ يَا أَبَا حَمْزَةَ قَالَ أَنَسٌ نَعَمْ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ فَقِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفَتَحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا الْخَالَةِ قَالَ هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ أَوَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ إِلَى إِدْرِيسَ قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ فَلَمَّا تَجَاوَزْتُ بَكَى قِيلَ لَهُ مَا يُبْكِيكَ قَالَ أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قِيلَ وَمَنْ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ هَذَا أَبُوكَ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ قَالَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَامَ قَالَ مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هَذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى وَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ فَقُلْتُ مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ هِيَ الْفِطْرَةُ الَّتِي أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَا أُمِرْتَ قَالَ أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ بِمَ أُمِرْتَ قُلْتُ أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ قَالَ فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي

مترجم:

3887.

حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام  ؓسے اس شب کا حال بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔۔ راوی کہتا ہے: میں نے جادو سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک۔‘‘  پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا ۔۔ جارود نے کہا: ابوحمزہ! وہ براق تھا؟ حضرت ابوحمزہ انس ؓ نے فرمایا: ہاں (وہ براق تھا) ۔۔ وہ اپنا قدم منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ تو میں اس پر سوار ہوا۔  میرے ہمراہ حضرت جبریل ؑ روانہ ہوئے۔ انہوں نے آسمان اول پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟  انہوں نے بتایا کہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: آپ کو یہاں تشریف لانے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر جواب ملا: مرحبا! آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا بہت اچھا ہے۔ پھر اس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں گیا تو حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت آدم ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اچھے بیٹے اور بزرگ نبی! خوش آمدید۔ اس کے بعد حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر اوپر چڑھے حتی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ بتایا کہ محمد ﷺ ہیں۔ دریافت کیا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ آنے والا مہمان بہت اچھا ہے اوراس (دربان) نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں خالہ زاد ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: برادر عزیز اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: آپ کا تشریف لانا مبارک ہو۔ تشریف لانے والا مہمان بہت اچھا ہے۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو حضرت یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ یوسف ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کہا: انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: نیک طنیت بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے چوتھے آسمان پر لے کر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! جس سفر پر آئے وہ مبارک اور خوشگوار ہو۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبریل نے کہا: یہ حضرت ادریس ؑ ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے برادر گرامی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر پانچویں آسمان پر چڑھے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! اور جس سفر پر آئے ہیں وہ خوش گوار اور مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبریل ؑ نےکہا: یہ حضرت ہارون ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اے معزز بھائی اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر حضرت جبریل ؑ مجھے لے کر چھٹے آسمان پر چڑھے۔ اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: انہیں خوش آمدید! سفر مبارک ہو۔ جب میں وہاں پہنچا تو حضرت موسٰی ؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ حضرت موسٰی ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دے کر کہا: اخی المکرم اور نبی محترم! خوش آمدید۔ پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے۔ پوچھا گیا: آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوعمر جوان جسے میرے بعد رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعداد میں داخل ہو گی۔ حضرت جبریل ؑ مجھے ساتویں آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انہیں دعوت دی گئی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید! اور جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ خوشگوار اور مبارک ہو۔ پھر میں وہاں پہنچا تو حضرت ابراہیم ؑ ملے۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم ؑ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اے پسر عزیز اور نبی محترم خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے بڑے ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح چوڑے چوڑے ہیں۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: (ان میں) دو نہریں بند اور دو نہریں کھلی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور فرات کا سرچشمہ ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔ پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا، ایک پیالہ دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایا گیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ حضرت جبریل ؑ نے کہا: یہ فطرت اسلام ہے جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔ پھر مجھ پر شب و روز میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا تو حضرت موسٰی ؑ کے پاس سے میرا گزر ہوا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور اس معاملے میں بنی اسرائیل کے ساتھ سرتوڑ کوشش کر چکا ہوں، لہذا آپ اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، چنانچہ میں لوٹ کر گیا اور اللہ تعالٰی نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔ پھر میں موسٰی ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر اللہ کے پاس گیا تو اللہ نے مزید دس نمازیں معاف کر دیں۔ میں پھر موسٰی ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔ پھر میں لوٹ کر گیا تو مجھے دس نمازیں اور معاف کر دی گئیں۔ پھر میں موسٰی ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا، چنانچہ میں لوٹ کر گیا تو مجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر لوٹا تو موسٰی ؑ نے پھر ویسا ہی کہا۔ میں پھر لوٹا تو مجھے ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا۔ پھر میں موسٰی ؑ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: ہر دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت دن میں پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی۔ میں تم سے پہلے لوگوں کا خوب تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل پر خوب زور ڈال چکا ہوں، لہذ تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کرو۔ میں نے جواب دیا میں اپنے رب سے کئی دفعہ درخواست کر چکا ہوں، اب مجھے حیا آتی ہے، لہذا میں راضی ہوں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آگے بڑھا تو ایک منادی (خود اللہ تعالٰی) نے آواز دی کہ میں نے حکم جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف بھی کر دی۔‘‘