تشریح:
1۔حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبے کے اندر دروازے کے پاس کرسی پر بیٹھے تھے تو وہیں ان کے پاس ابووائل شقیق بن سلمہ آکر بیٹھ گئے، پھر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو آخر میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں ان دونوں بزرگوں کی اقتدا کرتا ہوں۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1594) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور ترک دونوں کی پیروی ضروری ہے۔
2۔جب حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبے کا سونا چاندی مسلمانوں کے مصالح میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا تو دربان کعبہ حضرت ثیبہ بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دیا کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی مخالفت کرنے کی گنجائش نہ رہی ، گویا ان کے نزدیک ان بزرگوں کی اقتدا واجب تھی کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ بیت اللہ کی دیواریں زمین بوس ہو جائیں یا ان کی ترمیم کی ضرورت پڑے تو یہ مال اس ضرورت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اسے مسلمانوں کی ضرور بات پر خرچ کر دیا جائے تومعین مال اس ضرورت پر خرچ نہیں ہوسکے گا جس کے لیے اسے رکھا گیا ہے، اس لیے کہ لوگوں کی ضروریات اور مصالح پر کعبے کا مال خرچ کرنا جائز نہیں۔