قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَكَانَتْ عَائِشَةُ: «يَؤُمُّهَا عَبْدُهَا ذَكْوَانُ مِنَ المُصْحَفِ» وَوَلَدِ البَغِيِّ وَالأَعْرَابِيِّ، وَالغُلاَمِ الَّذِي لَمْ يَحْتَلِمْ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «يَؤُمُّهُمْ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ»وَلَا يَمْمَعُ الْعَيْدُ مِنَ الْجَمَاعَةِ بِغيْرِ عِلْةٍ

693. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنِ اسْتُعْمِلَ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حضرت عائشہ ؓ کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔تحریف کا ایک نمونہ:ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمیناگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔

693.

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اپنے حاکم کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ کوئی سیاہ فام حبشی ہی تم پر حاکم بنا دیا جائے جس کا سر منقے جیسا ہو۔‘‘