قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

193.04. حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، ح، وَحَدَّثَنَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ: لَهُ يَا أَبَا حَمْزَةَ، إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ لَهُ: اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللهِ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللهِ، فَيُؤْتَى مُوسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ فَإِنَّهُ رُوحُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ، فَيُؤتَى عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا، وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُوتَى، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي، فَيُؤْذَنُ لِي، فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ الْآنَ، يُلْهِمُنِيهِ اللهُ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ: يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ، أَوْ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ لِي: انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ "، هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ، قُلْنَا: لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَبَا سَعِيدٍ، جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ، فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ، قَالَ: هِيَهِ، فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هِيَهِ قُلْنَا: مَا زَادَنَا، قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ، وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ، أَوْ كَرِهَ أَنْ يُحَدِّثَكُمْ، فَتَتَّكِلُوا، قُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا، فَضَحِكَ وَقَالَ: {خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ} [الأنبياء: 37]، مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ، " ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ لِي: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ لَكَ - أَوْ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ - وَلَكِنْ وَعِزَّتِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي وَجِبْرِيَائِي، لَأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، "، قَالَ: فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ قَالَ: قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمِئِذٍ جَمِيعٌ.

مترجم:

193.04.

معبد بن ہلال عنزی نے کہا: ہم لوگ انس بن مالکؓ کے پاس گئے اور ثابت (البنانی) کو اپنا سفارشی بنایا، (ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی۔) ہم ان کے ہاں پہنچے، تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ثابت نے ہمارے لیے (اندر آنے کی) اجازت لی۔ ہم  اندر  ان کے سامنے حاضر ہوئے، انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا۔ ثابت نے ان سے کہا: اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کے (یہ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں، کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں۔ حضرت انسؓ نے کہا: ہمیں حضرت محمد ﷺ نے بتایا: ’’جب قیامت کا دن ہو گا، تو لوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔ وہ آدم ؑ کے پاس آئیں گے، اور ان سے عرض کریں گے: اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے (کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں۔) وہ کہیں گے: میں اس کے لیے نہیں ہوں، لیکن تم ابراہیم ؑ  کا دامن تھام لو! کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل (خالص دوست) ہیں۔ لوگ ابراہیمؑ ﷤ کے پاس جائیں گے، وہ جواب دیں گے: میں اس کے لیےنہیں، لیکن تم موسیٰ ؑ کے پاس پہنچ جاؤ! وہ کلیم اللہ ہیں، (جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا) تو موسیٰ ؑ کے پاس حاضری ہو گی۔ وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں، لیکن تم عیسیٰؑ کےساتھ لگ جاؤ! کیونکہ وہ اللہ کی روح  اور اس کا کلمہ ہیں۔ تو عیسیٰ ؑ کے پاس آمد ہو گی، وہ فرمائیں گے: میں اس کے لیے نہیں، لیکن تم محمد ﷺ کے پاس پہنچ جاؤ ! تو (ان کی ) آمد میرے پاس ہو گی۔ میں جواب دوں گا: اس (کام) کے لیے میں ہوں۔ میں چل پڑوں گا، اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت عطا کی جائے گی۔ میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا، اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا، جس پر میں اب  قادر نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ ہی یہ (حمد) میرے دل میں ڈالے گا، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیں! آپ کو دیا جائے گا، اور سفارش کریں! آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو مجھ سے کہا جائے گا: جائیں جس کے دل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے، اسے نکال لیں، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا۔ پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا، اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا، تو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں، آپ کی بات سنی جائے گی، اور مانگیں! آپ کو دیا جائے گا، اور سفارش کریں!  آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! مجھے کہا جائے گا: جائیں! جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو، اسے نکال لیں۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا، اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا۔ تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! ا پنا سر اٹھائیں، کہیں! آپ کی بات سنی جائے گی، اور مانگیں! آپ کو دیا جائے گا، اور سفارش کریں! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں کہوں گا: اے میرے رب ! میری امت ! میری امت !تو مجھ سے کہا جائے گا: جائیں! جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم، اس سے (بھی) کم، اس سے (اور بھی) کم ایمان ہو، اسے آگ سے نکال لیں، تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا۔‘‘ یہ حضرت انسؓ کی روایت ہے، جو  انہوں نے ہمیں بیان کی۔ (معبدی بن ہلال عنزی نے) کہا: چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے، تو ہم نے کہا: (کیا ہی اچھاہو) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں۔ وہ (حجاج بن یوسف کے ڈر سے) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نےکہا: جب ہم ان کے پاس پہنچے، تو انہیں سلام کیا، ہم نے کہا: جناب ابوسعید! ہم  آپ کے بھائی ابو حمزہ (حضرت انسؓ کی کنیت ہے) کے پاس سے آرہے ہیں، ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی، جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی۔ حسن بصری نے کہا: لائیں سنائیں۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی، تو  انہوں نے کہا: آگے سنائیں۔ ہم نے کہا: انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا۔ انہوں (حسن بصری) نے کہا: ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے، معلوم نہیں شیخ بھول گئے، یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا، کہ کہیں تم (اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر) بھروسا نہ کر لو۔ ہم نےعرض کی: آپ ہمیں سنا دیں! تو وہ ہنس پڑے اور کہا: انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا (اور کسی وجہ سے) نہیں کیا تھا، مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا، پھر اس کے حضور سجدہ  ریز ہو جاؤں گا، تو مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں! آپ کی بات سنی جائے گی، اور مانگیں! آپ کو دیا جائے گا، اور سفارش کریں! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا: اے میرے رب! مجھے ان کےبارے میں (بھی) اجازت دیجیے، جنہوں نے (صرف) "لا  إله إلا الله"  کہا۔ اللہ فرمائے گا: یہ آپ کے لیے نہیں، لیکن میری عزت کی قسم! میری کبریائی، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم! میں ان کو (بھی) جہنم سے نکال لوں گا، جنہوں نے "لا  إله إلا الله"  کہا۔‘‘ معبد کا بیان ہے: میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں، کہ انہوں نے ہمیں بتایا: کہ انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ سے یہ روایت سنی۔ میرا خیال ہے، انہوں نے کہا: بیس سال پہلے، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں۔