قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ (بَابٌ فِي حَدِيثِ الْهِجْرَةِ وَيُقَالُ لَهُ حَدِيثُ الرَّحْلِ بِالْحَاءِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

3014.09. حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا فَقَالَ لِعَازِبٍ ابْعَثْ مَعِيَ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي إِلَى مَنْزِلِي فَقَالَ لِي أَبِي احْمِلْهُ فَحَمَلْتُهُ وَخَرَجَ أَبِي مَعَهُ يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا لَيْلَةَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا كُلَّهَا حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ فَلَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ حَتَّى رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ بَعْدُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا فَأَتَيْتُ الصَّخْرَةَ فَسَوَّيْتُ بِيَدِي مَكَانًا يَنَامُ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّهَا ثُمَّ بَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً ثُمَّ قُلْتُ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَفَتَحْلُبُ لِي قَالَ نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ لَهُ انْفُضْ الضَّرْعَ مِنْ الشَّعَرِ وَالتُّرَابِ وَالْقَذَى قَالَ فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ فَحَلَبَ لِي فِي قَعْبٍ مَعَهُ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ قَالَ وَمَعِي إِدَاوَةٌ أَرْتَوِي فِيهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْرَبَ مِنْهَا وَيَتَوَضَّأَ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ مِنْ نَوْمِهِ فَوَافَقْتُهُ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ مِنْ الْمَاءِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اشْرَبْ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ قَالَ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا زَالَتْ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ وَنَحْنُ فِي جَلَدٍ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُتِينَا فَقَالَ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا اللَّهَ فَنَجَا فَرَجَعَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا قَالَ قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هَاهُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ قَالَ وَوَفَى لَنَا

مترجم:

3014.09.

ابو اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر (میرے والد) عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے: اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں، وہ اس (کجاوے) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچا دے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا: اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے۔ میرے والد نے ان سے کہا: ابو بکر! مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ہجرت کے لیے) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور(دھوپ کی شدت سے) راستہ خالی ہوگیا، اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا، اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی، اس کا سایہ بھی تھا، اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی۔ ہم اس کے پاس (سواریوں سے) اتر گئے۔ میں چٹان کے پاس آیا، ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ ﷺ اس کے سائے میں سوجائیں، پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھا دی، پھر عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد (کے علاقے) کی تلاشی لیتا ہوں (اور نگہبانی کرتا ہوں) آ پ سو گئے، میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی طرف آرہا تھا۔ وہ بھی اس کے پاس اسی طرح (آرام) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا: لڑکے! تم کس کے (غلام) ہو؟ اس نے کہا: مدینہ کے ایک شخص کا۔ میں نے کہا: کیا تمھاری بکریوں (کے تھنوں) میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟ اس نے کہا: ہاں۔ اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا: تھنوں سے بال، مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: میں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے، چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا (حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن (بھی) تھا، میں اس میں رسول اللہ ﷺ کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں، لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے۔ میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا، یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! یہ دودھ نوش فرمالیں۔ آپ نے نوش فرمایا، یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟‘‘ میں نے عرض کی: کیوں نہیں! کہا: پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روانہ ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا، جبکہ ہم ایک سخت زمین میں (چل رہے) تھے۔ میں نے عرض کی: ہمیں لیا گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔ میرا خیال ہے۔ اس نے کہا: مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔ میرے حق میں دعا کرو۔ (میری طرف سے) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا۔ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا، پھر وہ لوٹ گیا۔ جس (پچھاڑنے والے) کو ملتا اس سے یہ کہتا: میں (تلاش کرچکا ہوں) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں، وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا۔ (حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی۔