مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
6958.
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: ”جب حیوانات کا مالک ان کا شرعی حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن وہ جانور اس پر مسلط کر دیے جائیں گے اور وہ اپنے گھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔“ بعض لوگوں نے ایسے شخص کے متعلق کہا ہے کہ جس کے پاس اونٹ ہیں اور اسے اندیشہ ہے کہ اس پرزکاۃ واجب ہو جائے گی تو اگر اس نے اونٹوں کو ان کی مثل دوسرے اونٹوں کے عوض یا بکریوں کے عوض یا گایوں کے عوض یا دراہم کے عوض سال پورا ہونے سے ایک دن قبل زکاۃ سے بچنے کے لیے فروخت کر دیا تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں، حالانکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال گزرنے سے ایک دن یا چھ دن پہلے زکاۃ ادا کر دی جائے تو جائز ہے، یعنی اس سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں زکاۃ نہ دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا اس شخص کے لیے بھی ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکاۃ کو اپنے ذمے سے ساقط کر دے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص حرام سے بچنے یا حلال تک پہنچنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا حیلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کسی کا حق باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو ثابت کرنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا کرنا مکروہ ہے اور ان کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔ (فتح الباري: 415/12) اس کے باوجود یہ حضرات زکاۃ سے بچنے کے لیے لوگوں کو مختلف حیلوں کی تلقین کرتے ہیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کے اقوال میں تناقض ثابت کیا ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے وجوب کے لیے سال کا پوراہونا ضروری نہیں، پھر سال پورا ہونے سے پہلے حیلہ اسقاط زکاۃ کے جواز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے لیے سال کا پورا ہونا لازمی ہے پھر ان حضرات کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے سال کے بعد قرض واپس کرنا ہے تو وہ سال گزرنے سے پہلے قرض ادا کر دے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زکاۃ بھی سال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے لیکن یہ قیاس صحیح نہیں کیونکہ قرض لینے والا اگر معاف کر دے تو ایسا ممکن ہے لیکن زکاۃ لینے والے کو زکاۃ معاف کر دینے کا اختیار نہیں ہے۔ بہرحال حیلوں بہانوں سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قیامت کےدن اس سے باز پرس ہوگی۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ سزا بھی دے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6708.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6958
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6958
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6958
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
حدیث ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: ”جب حیوانات کا مالک ان کا شرعی حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن وہ جانور اس پر مسلط کر دیے جائیں گے اور وہ اپنے گھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔“ بعض لوگوں نے ایسے شخص کے متعلق کہا ہے کہ جس کے پاس اونٹ ہیں اور اسے اندیشہ ہے کہ اس پرزکاۃ واجب ہو جائے گی تو اگر اس نے اونٹوں کو ان کی مثل دوسرے اونٹوں کے عوض یا بکریوں کے عوض یا گایوں کے عوض یا دراہم کے عوض سال پورا ہونے سے ایک دن قبل زکاۃ سے بچنے کے لیے فروخت کر دیا تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں، حالانکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال گزرنے سے ایک دن یا چھ دن پہلے زکاۃ ادا کر دی جائے تو جائز ہے، یعنی اس سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں زکاۃ نہ دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہ سزا اس شخص کے لیے بھی ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکاۃ کو اپنے ذمے سے ساقط کر دے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اگر کوئی شخص حرام سے بچنے یا حلال تک پہنچنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا حیلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کسی کا حق باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو ثابت کرنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا کرنا مکروہ ہے اور ان کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔ (فتح الباري: 415/12) اس کے باوجود یہ حضرات زکاۃ سے بچنے کے لیے لوگوں کو مختلف حیلوں کی تلقین کرتے ہیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کے اقوال میں تناقض ثابت کیا ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے وجوب کے لیے سال کا پوراہونا ضروری نہیں، پھر سال پورا ہونے سے پہلے حیلہ اسقاط زکاۃ کے جواز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے لیے سال کا پورا ہونا لازمی ہے پھر ان حضرات کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے سال کے بعد قرض واپس کرنا ہے تو وہ سال گزرنے سے پہلے قرض ادا کر دے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زکاۃ بھی سال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے لیکن یہ قیاس صحیح نہیں کیونکہ قرض لینے والا اگر معاف کر دے تو ایسا ممکن ہے لیکن زکاۃ لینے والے کو زکاۃ معاف کر دینے کا اختیار نہیں ہے۔ بہرحال حیلوں بہانوں سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قیامت کےدن اس سے باز پرس ہوگی۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ سزا بھی دے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہوگا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کر ديے جائیں گے اور وہ اپنی کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے اور بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر ایک شخص کے پاس اونٹ ہیں اور اسے خطرہ ہے کہ زکوٰۃ اس پر واجب ہو جائے گی اور اس لیے وہ کسی دن زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کے طور پر اسی جیسے اونٹ یا بکری یا گائے یا دراہم کے بدلے میں بیچ دے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اونٹ کی زکوٰۃ سال پورے ہونے سے ایک دن یا ایک سال پہلے دے دے تو زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ زکوٰہ نہ دینے والے کی سزا اس میں مذکور ہے اور یہ عام ہے اس کو بھی شامل ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکوٰۃ اپنے اوپر سے ساقط کر دے۔ حضرت امام بخاری کا مطلب بعض لوگوں کا تناقض ثابت کرنا ہے کہ آپ ہی تو زکوٰۃ کا دینا سال گزرنے سے پہلے درست جانتے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ زکوٰہ کا وجوب سال گزرنے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے گو وجوب ادا سال گزرنے پر ہوتا ہے جب سال سے پہلے ہی زکوٰۃ کا وجوب ہوگیا تو اب مالک کا بدل ڈالنا اس کے لیے کیوں کر زکوٰۃ کو ساقط کر دے گا۔ اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ان سب صورتوں میں اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور ایسے حیلے بہانے کرنے کو اہل حدیث قطعاً حرام کہتے ہیں۔ مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ و فن نیست
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) added, "By Allah, that snake will keep on following him until he stretches out his hand and let the snake swallow it." Allah's Apostle (ﷺ) added, "If the owner of camels does not pay their Zakat, then, on the Day of Resurrection those camels will come to him and will strike his face with their hooves." Some people said: Concerning a man who has camels, and is afraid that Zakat will be due so he sells those camels for similar camels or for sheep or cows or money one day before Zakat becomes due in order to avoid payment of their Zakat cunningly! "He has not to pay anything." The same scholar said, "If one pays Zakat of his camels one day or one year prior to the end of the year (by the end of which Zakat becomes due), his Zakat will be valid."