تشریح:
(1) مصنف عبدالرزاق میں مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ عیدگاہ میں دعائے استسقاء کے لیے تشریف لے گئے اور حضرت عباس ؓ سے فرمایا آپ اٹھیں اور بارانِ رحمت کی دعا کریں۔ حضرت عباس ؓ نے دعائے استسقاء کی۔
(2) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ پیش کردہ حدیث سے اس کے کسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عنوان کے مطابق ہوتا ہے۔ (فتح الباري:639/2)
(3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، نیز اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ ہمارے اسلاف مردوں کو وسیلہ بنا کر دعا نہیں کرتے تھے، کیونکہ ایسا کرنا ایک غیر شرعی کام اور ناجائز وسیلہ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وسیلے کی دو اقسام ہیں: ٭ وسیلۂ جائز۔ ٭ وسیلۂ ممنوع۔ وسیلۂ جائز کی تین صورتیں ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِلَّـهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا﴾ ’’اللہ کے تمام نام اچھے ہیں تم اسے اچھے ناموں سے پکارو۔‘‘ (الأعراف180:7) ٭ نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے سوال کرنا، جیسا کہ غار والوں کا قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو انہیں وہاں سے نجات مل گئی۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2215) ٭ کسی زندہ بزرگ سے دعا کی اپیل کرنا، جیسے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس ؓ کو دعائے استسقاء کے لیے کہا تھا۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔ آپ نے رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ استعمال نہیں کیا۔ وسیلۂ ممنوع یہ ہے کہ فوت شدگان کو پکارنا یا انہیں حاجت روا خیال کرنا، جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ ایسا کرنا شرک اکبر ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام یا جاہ کا وسیلہ بھی جائز نہیں۔