قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِكَافِ (بَابُ الِاعْتِكَافِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِكَافِ فِي المَسَاجِدِ كُلِّهَا)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ، تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ} [البقرة: 187]

2026. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔تشریح : حافظ فرماتے ہیں الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔ و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔ سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )

2026.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی ہیں۔