تشریح:
1۔حضرت عباس ؓ کی بزرگی اور فضیلت کا اعتراف حضرت عمر ؓ کرتے تھے،لیکن اس کےباوجود انھوں نے اپنی مجلس شوریٰ میں شامل نہیں کیا تھا کیونکہ وہ فتح مکہ تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس کے بعد مسلمان ہوئے۔جنگ بدر میں قید ہوئے۔اپنا اور اپنے بھتیجے کا فدیہ دیا اورآزادی ملی۔ان کی کنیت ابوالفضل تھی۔آپ 12 رجب 32 بمطابق 17فروری 653ء بروز جمعہ فوت ہوئے۔حضرت عثمان ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔پھر انھیں جنت البقیع میں سپرد خا ک کیا گیا۔2۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندہ بزرگ سے دعا کرانا تو جائز ہے لیکن کسی فوت شدہ کا وسیلہ پکڑنا درست نہیں۔واللہ أعلم۔3۔بہرحال حضرت عباس ؓ بڑے سمجھ دار اور دانا تھے۔رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات چیت کریں تو حضرت علی ؓ نے فرمایا:اگرآپ نے ہمیں منع کردیا توآئندہ ہمیشہ کے لیے دروازہ بند ہوجائے گا۔اس لیے میں تو اس معاملے میں آپ سے بات نہیں کروں گا۔(صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4447)