تشریح:
(1) ان احادیث کا باب سابق سے تعلق ہے جس میں بیان ہوا تھا کہ مستورات رات اور اندھیرے میں نماز کے لیے مسجد کا رخ کر سکتی ہیں، چنانچہ حدیث عائشہ میں ہے کہ صحابیات مبشرات نماز صبح مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ نماز سے فراغت کے بعد منہ اندھیرے اپنے گھروں کو واپس ہو جاتی تھیں۔ اس حدیث میں ہے کہ وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ اس سے مراد معرفت جنس نہیں ہے کہ مرد کی یا عورت کی معرفت نہ ہوتی تھی بلکہ معرفت شخص ہے، یعنی عائشہ ؓ کو خدیجہ سے نہ پہچانا جاتا تھا جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ ایک دوسرے سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:872) حدیث ابو قتادہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی میں صحابیات بھی رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نماز باجماعت ادا کرتی تھیں۔ جب کسی کا بچہ رونے لگتا تو رسول اللہ ﷺ نماز مختصر کر دیتے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قراءت میں تخفیف کر دیتے تاکہ ماں اپنے بچے کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں عورتوں پر پابندی تھی کہ خوشبو لگا کر، فیشنی کپڑے پہن کر اور آواز والے زیورات سے مسجد میں نہ آئیں بلکہ سادہ لباس میں اپنے گھروں سے نکلیں۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینے کے باوجود آپ نے انہیں ترغیب دی کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔
(2) آخری حدیث عائشہ سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورتیں مطلق طور پر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں آ سکتیں، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ان حضرات کا مذکورہ استنباط محل نظر ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول سے مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم تبدیل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق کیا وہ نہیں پائی گئی۔ انہوں نے یہ کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ یہ حالات دیکھتے تو انہیں منع کر دیتے۔ اس پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان حالات کو نہ دیکھا اور نہ اس سے منع فرمایا، اس لیے حکم نبوی اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ خود حضرت عائشہ ؓ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگرچہ ان کے کلام سے منع کا اشارہ نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ حالات میں عورتوں کے متعلق کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مساجد سے روکنے کے لیے کوئی وحی نازل نہیں فرمائی۔ اگر نئے حالات کی وجہ سے عورتوں کو منع کرنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی انہیں ضرور منع کر دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فیشن پرستی کی لپیٹ میں تمام عورتیں نہیں آتیں بلکہ کچھ عورتیں اس کا شکار ہوتی ہیں، لہٰذا تمام پر پابندی لگانا کوئی عقل مندی نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان امور کا سدباب کیا جائے جو منکرات و فواحش کا پیش خیمہ ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’عورتیں خوشبو لگا کر اور زیورات سے مزین ہو کر گھروں سے باہر نہ نکلیں بلکہ سادہ لباس پہن کر مساجد میں آئیں۔ رات کی پابندی کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔‘‘ (فتح الباري:452/2) ان حقائق کے پیش نظر ہمارا موقف ہے کہ عورتیں شرعی قیود کا لحاظ کرتے ہوئے مسجد میں نماز ادا کر سکتی ہیں اگرچہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) اس حدیث کے آخر میں بنی اسرائیل کی عورتوں پر بھی مساجد میں داخلے کے متعلق پابندی کا ذکر ہے۔ اس کی وضاحت ایک موقوف اثر میں اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے مردوں سے تاک جھانک کے لیے اپنی ٹانگوں سے لمبے لمبے بانس باندھ لیے تاکہ اونچی ہو کر مردوں کو دیکھ سکیں۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں مساجد میں آنے سے روک دیا اور ان پر حیض مسلط کر دیا۔ (المصنف لعبد الرزاق:149/3، حدیث:5114) لیکن یہ روایت مرفوع روایت کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے جیسا کہ کتاب الحیض کے آغاز میں اپنے فوائد میں ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں، اس لیے اگر یہ بات صحیح ہے کہ بنو اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں آنے سے روک دیا گیا تھا (کیونکہ یہ موقوف قول ہے) تو اس کی کیا وجہ تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کسی صحیح مرفوع روایت میں نہ روکے جانے والی بات بیان ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی وجہ ہی ہے۔ واللہ أعلم۔