تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس نے سچ سچ بتا دیا ہے اب اس کے متعلق خیر کے علاوہ کچھ نہ کہو۔‘‘حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس نے اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے خیانت کا ارتکاب کیا ہے آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا وہ اہل بدر میں سے نہیں ہے؟ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم جو چاہو کرو میں نے تمھارے لیے جنت واجب کردی ہے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں عرض کرنے لگے۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:8339)
2۔ صحیح بخاری کی روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر سن کر انھیں معاف کر دیا ہواور کسی ذریعے سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انھیں اس جرم کی کوئی سزا دی گئی ہو اس بناء پر علمائے امت نے یہی سمجھا ہے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عذر سن کر انھیں چھوڑ دیا گیا۔ البتہ اس میں یہ درس ضرور ہے کہ جہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہو اور جہاں اہل ایمان سے صرف ایمان کی وجہ سے لوگ دشمنی کرتے ہوں وہاں کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی ذاتی غرض یا مصلحت کی خاطر کوئی ایسا کام کرے جس سے اسلام اور اہل اسلام کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور کفر اور اہل کفر کے مفادات کو تحفظ ملتا ہو۔ ایسی حرکت ایمان کے منافی ہے کوئی شخص اگر اسلام کی بد خواہی کے جذبے سے بالکل خالی ہو اور بد نیتی سے نہیں بلکہ محض اپنی کسی ذاتی مصلحت کی خاطر ہی یہ کام کرے۔ پھر بھی یہ فعل کسی مومن کے شایان شان نہیں۔ قرآن کریم نے تصریح کی ہے کہ جس نے بھی یہ کام کیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ (الممتحنة:60۔1)
3۔ بہر حال حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض اپنے اہل وعیال کو بچانے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نہایت اہل جنگی راز سے دشمنان اسلام کو خبر دار کرنے کی کوشش ک تھی جسے اگر بر وقت ناکام نہ کر دیا گیا ہوتا تو فتح مکہ کے موقع پر شاید بہت زیادہ خون خرابہ ہوتا مسلمان کی بہت قیمتی جانیں ضائع ہو جاتیں اور قریش کے بھی بہت سے وہ لوگ مارے جاتے جو بعد میں اسلام کی عظیم خدمات سر انجام دینے والے تھے اور وہ تمام فوائد بھی ضائع ہو جاتے جو مکہ کو پر امن طریقےسے فتح کرنے کی صورت میں حاصل ہوسکتے تھے۔ واللہ اعلم۔