تشریح:
(1) علامہ عینی رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حدیث کا مدلول اس طور پر ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے اور اسے قتل کر دے تو اس پر قصاص واجب ہے کیونکہ اگرچہ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے لیکن اس نے حدود میں شہادت کو ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کر کے اسے قتل کر دے۔ صرف دعویٰ کرنے سے خون معاف نہیں ہوگا۔ (عمدة القاري:122/16)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے دور حکومت میں ایک خاوند نے کسی اجنبی کو اپنی بیوی کے ہمراہ مصروف کار پایا تو اس نے دونوں کو قتل کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے گورنر کو خط لکھا کہ اسے قتل کر دیا جائے، نیز خفیہ طور پر ہدایت دی کہ اس کے اہل خانہ کو بیت المال سے دیت ادا کی جائے۔ (المصنف لعبدالرزاق، حدیث:17921، وفتح الباري:215/12) احناف کے ہاں اس کی کچھ تفصیل ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی یا لونڈی زانی سے موافقت کرتی ہے تو مرد وعورت دونوں کو قتل کر دے۔ (عمدة القاري:122/16)
(3) ہمارے رجحان کے مطابق اگر قاتل گواہوں سے یہ ثابت کر دے کہ اجنبی مرد اس کی بیوی سے بدکاری کر رہا تھا یا ایسی حالت میں مارے کہ دونوں اس فعل بد میں مصروف تھے تو ایسی حالت میں قصاص ساقط ہو جانا چاہیے۔ بہرحال معاملہ خاصا پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے۔ واللہ أعلم