قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي العِلْمِ، وَالغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالبِدَعِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَا أَهْلَ الكِتَابِ لاَ تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلاَ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الحَقَّ} [النساء: 171]

7304. حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ جَاءَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ فَقَالَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا فَرَجَعَ عَاصِمٌ فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ الْمَسَائِلَ فَقَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ فَقَالَ لَهُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكُمْ قُرْآنًا فَدَعَا بِهِمَا فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَفَارَقَهَا وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا فَجَرَتْ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ كَذَبَ وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْأَمْرِ الْمَكْرُوهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔

7304.

سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔“ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا ہوگا، اس لیے انہوں نے فوری طور پر اپنی بیوی کو جدا کر دیا جبکہ نبی ﷺ نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھرلعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہوگیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم دیکھتے رہو اگر اس عورت نے چھوٹے قد والا سرخ رنگ کا بچہ جنم دیا جیسے زمین کا کیڑا ہوتا ہے تو میں عویمر کو جھوٹا خیال کروں گا۔ اور اگر اس نے کالا، موٹی آنکھوں والا بھاری سرینوں والا بچی جنا تو میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے۔“ پھر اس عورت نے مکروہ صورت کا بچہ جنم دیا، یعنی جس مرد سے بدنام ہوئی تھی اسی صورت کا بچہ پیدا ہوا۔