1 ‌جامع الترمذي أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَل...

حکم: ضعیف

4171 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ حَدَّثَتْنِي سَلْمَى قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ...

جامع ترمذی: كتاب: فضائل و مناقب کے بیان میں (باب: حسن بن علی اور حسین بن علیؓ کے مناقب)

مترجم: ٢. فضيلة الدكتور عبد الرحمٰن الفريوائي ومجلس علمي (دار الدّعوة، دهلي)

4171. سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہ‬  ؓ ک‬ے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں ) آپﷺ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپﷺ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسولﷺ! تو آپﷺ نے فرمایا: ’’میں نے حسین ؓ کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔...


2 ‌مسند احمد مُسْنَدُ الْعَشْرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ مُسْنَدُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ ع...

حکم: إسناده ضعيف

661 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُدْرِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ فَنَادَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ قُلْتُ وَمَاذَا قَالَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَغْضَبَكَ أَحَدٌ مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ قَالَ بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ فَحَدَّثَن...

مسند احمد: جنت کی بشارت پانےوالےدس صحابہ کی مسند (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویات)

مترجم: مولانا محمد ظفر اقبال

661. عبداللہ بن نجی کے والد ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے، ان کے ذمے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وضو کی خدمت تھی، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی کے قریب پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر فرمایا ابو عبداللہ! فرات کے کنارے پر رک جاؤ، میں نے پوچھا کہ خیریت ہے؟ فرمایا میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا، خیر تو ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں؟ فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اب...