قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ (بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ)

حکم : حسن 

1173. حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نِزَارٍ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مَبْرُورٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ، فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَبَّرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَالَ: >إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ، وَاسْتِئْخَارَ الْمَطَرِ، عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ، وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَدْعُوهُ، وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ. مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ}[الفاتحة: 2-4], لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ، وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ! أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ<، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ فِي الرَّفْعِ، حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَقَلَبَ -أَوْ حَوَّلَ- رِدَاءَهُ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، وَنَزَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ، وَبَرَقَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ، حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ، ضَحِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَقَالَ: >أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ<. قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَقْرَءُونَ: {مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ}[الفاتحة: 4]، وَإِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ حُجَّةٌ لَهُمْ.

مترجم:

1173.

ام المؤمنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ا بیان ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ بارش نہیں ہو رہی تو آپ ﷺ نے نماز گاہ میں منبر رکھنے کا حکم دیا اور لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا کہ وہ اس میں باہر آئیں۔ عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس روز (نماز استسقاء کے لیے) اس وقت نکلے جب سورج کی ٹکیہ نکل آئی تھی، آپ ﷺ منبر پر بیٹھے اور اللہ عزوجل کی تکبیر و تحمید کی، پھر فرمایا: ”تم نے شکایت کی ہے کہ تمہارے علاقے خشک ہو رہے ہیں اور بارش میں اپنی آمد کے وقت سے تاخیر ہو رہی ہے۔ تو اللہ عزوجل نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اسے پکارو، اور تم سے اس کا وعدہ ہے کہ وہ قبول کرے گا۔“ پھر فرمایا: ”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بےانتہا رحم کرنے والا اور مہربان ہے۔ روز جزا کا بادشاہ ہے۔ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں، تو غنی اور بے پروا ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور جو تو نازل فرمائے اسے ہمارے لیے قوت اور ایک وقت تک کے لیے گزران بنا دے۔“  پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اٹھاتے گئے، حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کی طرف پیٹھ کر لی (یعنی قبلہ رخ ہو گئے) اور اپنی چادر پلٹائی جب کہ آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ بعد ازاں لوگوں کی طرف منہ کیا اور منبر سے اتر آئے اور دو رکعتیں پڑھائیں۔ تب اللہ نے ایک بدلی پیدا فرمائی، وہ کڑکی اور چمکی اور اللہ کے حکم سے برسنے لگی، آپ اپنی مسجد تک نہ پہنچے کہ نالے بہنے لگے۔ جب آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ سایوں اور چھپروں کی طرف جلدی جلدی بھاگ رہے ہیں تو آپ ہنسے، حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں نظر آنے لگیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“  امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔ (یعنی اس کے رواۃ میں تفرد ہے) اور سند کے اعتبار سے جید (عمدہ) ہے۔ (یعنی اس میں کوئی علت قادحہ نہیں۔) اور یہ حدیث اہل مدینہ کی دلیل ہے کہ وہ لوگ «ملك يوم الدين» پڑھتے ہیں۔