تشریح:
فوائد و مسائل:(1) اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی ﷺ تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتےتھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے ) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہواہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر کی سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: (فتح الباري، باب من تحدث بعد الرکعتین ولم یضطجع:3/56) علاوہ ازیں شیخ البانی نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ (ضعیف ابو داؤد) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتین نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔‘‘ تویہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ (مرعاة المفاتیح)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، لكن ذكر التحديث والاضجاع قبل ركعتي الصبح شاذ، والمحفوط أن ذلك بعدهما، كما في الرواية الأتية. وكذلك أخرجه الشيخان وأبو عوانة في صحاحهم ) . إسناده: حدثنا يحيى بن حكيم: ثنا بثر بن عمر: ثنا مالك بن أنس عن سالم أبي النضر عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير يحيى بن حكيم، وهو ثقة؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البيهقي (3/45) من طريق المصنف. ولم أره في الموطأ المتداول اليوم! وقد ذكر البيهقي أن مالكاً رواه خارج الموطأ . وقد خولف في الاضطجاع قبل ركعتي الصبح، فجعلهما غيره بعدهما؛ فقال الحميدي في مسنده (175) : ثنا سفيان قال: ثنا أبو النضر... به ، بلفط: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمٍَ يصلي ركعتي الفجر؛ فإن كنت ممستيقظة حدثني؛ وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة. وأخرجه أبو عوانة (2/278) ، والبيهقي (3/45) ، من طريق الحميدي. وبإسناده: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (2/35/2) ، وعنه مسلم (2/168) . وأخرجه البخاري (2/49 و 50) من طريقين آخرين عن سفيان... به. ولسفيان فيه إسناد آخر عن أبي سلمة، وهو الآتي بعده: