تشریح:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک رات میں قرآن ختم کرنا مکروہ اور غلط ہے۔ اور کچھ لوگ جو اپنے آئمہ کی شان میں یہ بیان کرتے ہیں۔ کہ وہ رات کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتےتھے۔ رات کو ہزار ر کعت پڑھتے اور قرآن مجید ختم کرتے تھے۔ تو یہ سب باتیں نادان دوستوں کی خود ساختہ ہیں۔ ان میں ان بزرگوں کی طرف غلطی اور مخالفت سنت کی نسبت ہے حالانکہ آئمہ کرام سنت رسولﷺ کے محب اور اسی کے قائل وفائل تھے۔ ایسی بے سروپا باتوں سے ان کا مقام ومرتبہ کسی طور بڑھتا نہیں ہے۔ (دیکھئے۔ میعار الحق۔ ازشیخ الکل سید نزیر حسین محدث دیلوی ؒ) غور کرنے کی بات ہے کہ اوسط درجے کے دنوں کی راتیں بارہ گھنٹے کی ہوتی ہیں۔ اس میں سے عشاء اور فجرکے اوقات جو کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں۔ انہیں مستثنیٰ کردیں۔ تو صرف آٹھ گھنٹے یعنی 480 منٹ باقی بچتے ہیں۔ اگر اتنی دیر میں ایک ہزار رکعتیں پڑھی جایئں تو ایک رکعت کے لئے بمشکل بیس پچیس سیکنڈ ملیں گے۔ اخر اتنے وقت میں جس رفتار سے نماز پڑھی جائے گی۔ وہ عبادت ہوگی یا کھیل؟ بلکہ مشین بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے یہ قطعی ہے کہ اس طرح کی باتیں عقیدت مندوں نے گھڑ کر امام کی طرف منسوب کردیں ہیں۔ درآں حالیکہ خود امام نے یہ کام نہیں کیا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن صحيح) .إسناده : حدثنا محمد بن حفص أبو عبد الرحمن القَطان خال عيسى بن شاذان: ئخيرنا أبو داود: أخبرنا الحَرِيشُ بن سُلَيْمٍ عن طلحة بن مُصَرفٍ عن خيثمة عن عبد الله بن عمرو. قال أبو علي: سمعت أبا داود يقول: سمعت أحمد- معنه: ابن حنبل- يقول: عيسه بن شاذان كَيس .
قلت : وهذا إسناد حسن؛ طلحة وخيثمة- وهو ابن عبد الرحمن الجُعْفِي- ثقتان من رجال الشيخين. والحريش بن سليم؛ قال أبو داود الطيالسي. ثقة . وذكره ابن حبان في الثقات . وقال ابن معين: ليس بشيء . وقال الحافظ: مقبول . وأبو داود: هو الطيالسي، ثقة من رجال، مسلم. ومحمد بن حفص القطان؛ ذكره ابن حبان في الثقات ، وروى عنه جماعة. وقال الحافظ: مقبول . وبالجملة؛ فالإسناد عندي حسن، وهو صحيح بما قبله، وما سنذكره تحت
الحديث (1261) .