تشریح:
(1) قنوت کے کئی معانی ہیں یعنی اطاعت، خشوع، نماز، دعا، عبادت، قیام، طول قیام اور سکوت۔ اور نماز وتر میں بمعنی دعا ہے۔
(2) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ قنوت کی دعاؤں میں اس سے بڑھ کر عمدہ دعا نبی ﷺ سے مروی نہیں ہے۔
(3) اس دعا کے پانچویں جملے [وقنی شر ما قضیت] کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے تمام تر فیصلے حق اور خیر ہی ہوتے ہیں۔ مگر انسانوں یا مخلوق کے اپنے تاثر یا اعتبار سے ان کے اپنے حق میں برے یا شر سمجھے جاتے ہیں، ورنہ ان کا صدور فی نفسہ خیر ہی پر مبنی ہوتا ہے۔
(4) دعا کے آخر میں [ربنا وتعالیت] کے بعد [نستغفرك ونتوب إلیك] کے الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں، لہذا انہیں دوران دعا میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
(5) دعا کے آخر میں (صلی اللہ علی النبی محمد) کے الفاظ صرف سنن النسائی کی روایت میں ہیں لیکن حافظ ابن حجر، امام قسطلانی اور امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہم نے ان الفاظ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم ان الفاظ کو دعا کے آخر میں پڑھ لینے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ ابو حلیمہ معاذ انصاری کے بارے میں ہے کہ وہ قنوت وتر میں رسول اللہ ﷺ پر درود سلام پڑھا کرتے تھے۔ دیکھیے [فضل الصلاۃ علی النبی ﷺ از اسماعیل القاضی رقم :10] اور یہ واقعہ حضرت عمر کے دور کا ہے۔ اس اثر کو حافظ ابن حجر اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صفة صلاة النبي:180) اسی طرح حضرت ابی بن کعب کے بارے میں ہے کہ وہ بھی قنوت وتر میں نبی کریم ﷺ پر درود صلوۃ پڑھا کرتے تھے۔ اس اثر کی سند بھی صحیح ہے، اسے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: ( صفة الصلاة النبي ﷺ ، ص:180)
(6) [ولا یعز من عادیت] کے الفاظ کی بابت بعض علمائے محققین نے لکھا ہے کہ یہ الفاظ صرف سنن بیہقی میں ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ الفاظ سنن ابوداؤد کے بعض نسخوں میں نہیں ہیں۔ تاہم سنن ابو داؤد کے بعض نسخوں میں موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو: سنن ابوداؤد مطبوعہ دارالسلام اور مطبوعہ دارالکتب علمیہ بیروت، وغیرہ۔
الحکم التفصیلی:
(زيادة، استدركت من طبعة الدعاس وغيرها، وفي أصل الشيخ رحمه الله دونها؛ تبعاً للطبعة التازية. (الناشر.)
قلت ، حديث صحيح، وصححه ابن خزيمة وابن حبان، وحسنه الترمذي . إسناده: حدثنا قتيبهَ بن سعيد وأحمد بن جَوَّاس الحنفي قالا: ثنا أبو الأحوص عن أبي إسحاق عن ئرَيْدِ بن أبي مريم عن أبي الحوراء... حدثنا عبد الله بن محمد الئفَيْلِي: ثنا زهير: ثنا أبو إسحاق... بإسناده ومعناه؛ قال في آخره: قال: هذا يقول في الوتر في القنوت؛ ولم يذكر: أقولهن في الوتر. أبو الحوراء: ربيعة بن شيبان.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير أن أبا إسحاق- وهو السبيعي- مختلط ومدلس، وقد عنعنه؛ لكنه قد توبع؛ فالحديث صحيح، وقد صححه وحسنه من ذكر أنفاً، وقد خرجته في الإرواء رقم (429) ؛ فأغنى عن الإعادة.