تشریح:
1۔ دعائے قنوت وتر کی بابت حضرت ابی کعب سے مروی ہے۔رسول اللہ ﷺ تین وتر پڑھتے اور دعائے قنوت رکوع سے قبل پڑھتے۔ دیکھئے۔ (سنن نسائی، قیام اللیل، حدیث: 1700 و سنن ابن ماجة، إقامة الصلاة، حدیث: 1182) نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمل مذکور ہے۔ کہ یہ قنوت وتر رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ دیکھئے۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 97/2) واضح رہے کہ مسنون طریق تو یہی ہے۔ کہ وتروں میں دعائے قنوت قبل از رکوع ہوا۔ البتہ قنوت نازلہ بالخصوص رکوع کے بعد ہی ثابت ہے۔ تاہم بعض علماء دعائے قنوت وتر رکوع کے بعد پڑھنے کے قائل ہیں۔ اور وہ بھی جائز ہے۔ لیکن علمائے محققین حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب مرعاۃ مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اوردیگر علمائے قنوت وتر قبل از رکوع والی روایات کو زیادہ ترصحیح کہا ہے۔ اور انہیں بعد از رکوع والی روایات پر ترجیح دی ہے۔ جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ افضل اور اولیٰ یہی ہے۔ کہ قنوت وتررکوع سے قبل پڑھی جائے۔ (واللہ اعلم)
2۔ دعائے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی مرفوع روایت نہیں ہے۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ میں کچھ آثار ملتے ہیں۔ جن میں صرف ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ ہے۔ دیکھئے۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 101/2) بعض علماء کے نزدیک ہاتھ اُٹھا کر یا ہاتھ اُٹھائے بغیر دونوں طریقوں سے قنوت وتر پڑھنا صحیح ہے۔ تاہم ہاتھ اُٹھا کر دعائے قنوت پڑھنا اس لئے راحج ہے کہ ایک تو قنوت نازلہ میں نبی کریمﷺ سے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے۔ تو اس پر قیاس کرتےہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اُٹھانے صحیح ہوں گے۔ دوسرے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کا ثبوت ملتا ہے۔
3۔ عام دعا کے اختتام پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرنا گو کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ مگر بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین مثلا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ عمل ثابت ہے۔ دیکھئے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 609) اس لئے اس کا جواز ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص دعائے قنوت کے بعد اپنے ہاتھ منہ پر نہیں پھیرتا تو اس کا یہ عمل صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا ثبوت صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی نہیں ملتا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، وحسنه الترمذي. إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن هشام بن عمرو الفَزَارِي عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن علي بن أبي طالب. قال أبو داود: هشام أقدم شيخ لحماد، وبلغني عن يحيى بن معين أنه قال: لم يَرْوِ عنه غيرحماد بن سلمة .
قلت: ومع ذلك؛ فقد قال ابن معين في تمام كلامه المذكور: وهو ثقة . وقال أبو حاتم: ثقة شيخ قديم . ووثقه أحمد أيضا، وابن حبان. والحديث أخرجه بقية أصحاب السنن وغيرهم من طرق عن حماد بن سلمة... به. وقال الترمذىِ: حديث حسن غريب . وفد خرجته في الإرواء (430) .