تشریح:
(1) یعنی ہمہ قسم کی الجھنوں‘ پریشانیوں اور دکھوں وغیرہ سے اللہ کی پناہ‘ حفاظت اور امان طلب کرنا۔ شریعت سے ثابت ’’تعویذ ‘‘ یہی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اور جو لوگ کچھ لکھ لکھا کر اپنے گلے میں ڈال لیتے یا بازو پر باندھ لیتے ہیں رسول اللہﷺ کی تعلیم و توجیہ سے ثابت نہیں ہے لہذا اس سے بچنا چاہیے اور کچھ تو ایسے ہیں کہ ان تعویذات میں کفریہ اور شرکیہ الفاظ وکلمات لکھتے ہیں جو سرا سر جہنم خریدنے کا سودا ہے۔ أعاذنا الله منهم
(2) اس موضوع اور مفہوم کی اور بھی احادیث ہیں ان سب کو دیکھ لیا جائے توزیادہ مفید ہو گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف لما سبق في الذي قبله (يعني: الحديث (269) من الضعيف . (الناشر). إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا وكيع: ثنا إسرائيل.
قلت: وهذا إسناد ضعيف لما ذكرنا في الذي قبله (يعني: الحديث (269) من الضعيف . (الناشر) . والحديث مخرج في تخريج المشكاة (2466) - التحقيق الثاني-. ثم وجدت للحديث علة أخرى، وهي الإرسال، فقد أخرجه النسائي (2/317) من طريق سفيان عن أبي إسحاق عن عمرو بن ميمون قال: كان النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يتعوذ. مرسل.
قلت: وسفيان- وهو الثوري- روى عن أبي إسحاق قبل الاختلاط، فهذا هو المحفوظ عن أبي إسحاق؛ مرسل. والله أعلم. ثم قررت نقله إلى الصحيح ؛ لشواهد ذكرتها فيما علقته على الموارد (ص 606) .