تشریح:
یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔ تاہم استغفار کی اہمیت وفضیلت قرآن واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ اس لئے استغفار کی کثرت ہر صاحب تقویٰ کا شیوہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ) (الطلاق ۔2۔3) جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے۔ اللہ اس کے لئے تنگی سے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے۔ اور ایسے مقام سے رزق دیتا ہے۔جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔ استغفار کے ہوتے ہوئے مومن متبع سنت کو کسی دست غیب اور بدعی عمل کی حاجت نہیں۔ رزق کی تنگی دامن گیر ہو یا دنیا کے ہموم وافکار کا ہجوم تو استغفار کرے وسعت ہوجائے گی۔ اور رنج وفکر سے نجات پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ﴿١١﴾ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا) (نوح۔10۔12) اللہ سے بخشش مانگو بے شک وہ بہت ہی بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارشیں برسائے گا۔ (قحط تنگ دستی جاتی رہے گی اور فراخی حاصل ہوگی) اور مالوں اور اولاد سے تمہای مدد فرمائے گا۔ اور تمھیں باغات اور نہریں دے گا۔ (فوائد وحید الزمان بتصرف)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ الحكم مجهول) . إسناده: حدثنا هشام بن عمار: ثنا الوليد بن مسلم: ثنا الحكم بن مصعب...
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ الحكم هذا مجهول، قال أبو حاتم: لا أعلم روى عنه غيره . وأما ابن حبان فذكره في الثقات ! ولكنه قال: يخطئ . قال الحافظ: هذا مُقِل جدأ. فإن كان أخطأً؛ فهو ضعيف. وقد قال أبو حاتم: مجهول. وذكره ابن حبان في الضعفاء أيضاً، وقال: روى عنه أبو المغيرة أيضاً، لا يجوز الاحتجاج بحديثه، ولا الرواية عنه؛ إلا على سبيل الاعتبار . انتهى. وهو تناقض صعب! وقال الأزدي: لا يتابع على حديثه؛ فيه نظر . والحديث رواه النسائي وابن ماجه والحاكم، وهو مخرج في تخريج الترغيب (2/ 268) ، و الأحاديث الضعيفة (706) .