قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْمَنَاسِكِ (بَابُ الْعُمْرَةِ)

حکم : صحیح 

1989. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عِيسَى بْنِ مَعْقَلِ بْنِ أُمِّ مَعْقَلٍ الْأَسَدِيِّ أَسَدِ خُزَيْمَةَ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ مَعْقَلٍ قَالَتْ لَمَّا حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ فَجَعَلَهُ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَصَابَنَا مَرَضٌ وَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ حَجِّهِ جِئْتُهُ فَقَالَ يَا أُمَّ مَعْقِلٍ مَا مَنَعَكِ أَنْ تَخْرُجِي مَعَنَا قَالَتْ لَقَدْ تَهَيَّأْنَا فَهَلَكَ أَبُو مَعْقِلٍ وَكَانَ لَنَا جَمَلٌ هُوَ الَّذِي نَحُجُّ عَلَيْهِ فَأَوْصَى بِهِ أَبُو مَعْقِلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ فَهَلَّا خَرَجْتِ عَلَيْهِ فَإِنَّ الْحَجَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَمَّا إِذْ فَاتَتْكِ هَذِهِ الْحَجَّةُ مَعَنَا فَاعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهَا كَحَجَّةٍ فَكَانَتْ تَقُولُ الْحَجُّ حَجَّةٌ وَالْعُمْرَةُ عُمْرَةٌ وَقَدْ قَالَ هَذَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَدْرِي أَلِيَ خَاصَّةً

مترجم:

1989.

سیدہ ام معقل ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع کیا تو ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا۔ ابومعقل ؓ نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ہمیں بیماری نے آ لیا اور ابو معقل فوت ہو گئے۔ اور نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ اپنے حج سے فارغ ہو کر آئے تو میں حاضر خدمت ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام معقل! کیا مانع تھا کہ تو ہمارے ساتھ حج کے لیے نہیں گئی؟“ اس نے کہا: ہم تو تیار تھے مگر ابو معقل فوت ہو گئے، ہمارا ایک ہی اونٹ تھا جس پر ہمیں حج کرنا تھا، تو ابومعقل نے اس کے بارے میں وصیت کر دی کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو اسی پر کیوں نہ چل دی؟ بلاشبہ حج ”فی سبیل اللہ“ ہی ہے۔ خیر جب تم سے ہمارے ساتھ یہ حج کرنا فوت ہو گیا ہے تو رمضان میں عمرہ کرنا، بلاشبہ یہ حج کی مانند ہے۔“ چنانچہ وہ کہا کرتی تھیں کہ حج، حج ہے اور عمرہ، عمرہ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ فرمایا تھا، معلوم نہیں یہ بات میرے لیے خاص تھی (یا امت کے لیے عام)۔