قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَنْ حَرَّمَ بِهِ)

حکم : صحیح 

2061.  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ كَانَ تَبَنَّى سَالِمًا، وَأَنْكَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَهُوَ مَوْلًى لِامْرَأَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، كَمَا تَبَنَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، وَكَانَ مَنْ تَبَنَّى رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ, دَعَاهُ النَّاسُ إِلَيْهِ، وَوُرِّثَ مِيرَاثَهُ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي ذَلِكَ: {ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ- إِلَى قَوْلِهِ- فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ}[الأحزاب: 5]، فَرُدُّوا إِلَى آبَائِهِمْ، فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ, كَانَ مَوْلًى وَأَخًا فِي الدِّينِ، فَجَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ، ثُمَّ الْعَامِرِيِّ -وَهِيَ امْرَأَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ-، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا كُنَّا نَرَى سَالِمًا وَلَدًا، وَكَانَ يَأْوِي مَعِي وَمَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ فِي بَيْتٍ وَاحِدٍ، وَيَرَانِي فُضْلًا، وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِمْ مَا قَدْ عَلِمْتَ، فَكَيْفَ تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَرْضِعِيهِ<. فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ، فَكَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّهم عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخَوَاتِهَا، وَبَنَاتِ إِخْوَتِهَا، أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا، وَيَدْخُلَ عَلَيْهَا -وَإِنْ كَانَ كَبِيرًا- خَمْسَ رَضَعَاتٍ، ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهَا، وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْكَ الرَّضَاعَةِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، حَتَّى يَرْضَعَ فِي الْمَهْدِ، وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ: وَاللَّهِ مَا نَدْرِي, لَعَلَّهَا كَانَتْ رُخْصَةً مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ دُونَ النَّاسِ!

مترجم:

2061.

امہات المؤمنین سیدہ عائشہ‬ ؓ ا‬ور ام سلمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس نے سالم کو اپنا متبنی (منہ بولا بیٹا) بنایا ہوا تھا اور اس سے اپنی بھتیجی ہند دختر ولید بن عتبہ بن ربیعہ کا نکاح کر دیا تھا۔ وہ ایک انصاری خاتون کا آزاد کر دو غلام تھا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے زید ؓ کو اپنا متبنی بنایا تھا اور جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جسے کوئی اپنا متبنی بنا لیتا تو لوگ اس کو اسی کی نسبت سے پکارا کرتے تھے اور وہ (اپنے منہ بولے باپ کا) وارث بھی بنتا تھا، حتیٰ کہ اللہ عزوجل نے اس بارے میں یہ حکم نازل فرمایا کہ {ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ- إِلَى قَوْلِهِ- فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ} ”انہیں ان کے حقیقی باپوں کی نسبت سے پکارا کرو۔ اگر وہ معلوم نہ ہوں تو یہ تمہارے دینی بھائی اور مولیٰ ہیں۔“ چنانچہ انہیں ان کے باپوں کی طرف لوٹا دیا گیا اور جس کا باپ معلوم نہ ہوا وہ مولیٰ اور دینی بھائی کہلانے لگا۔ الغرض! (ابوحذیفہ ؓ کی بیوی) سہلہ بنت سہیل بن عمرو قرشی، عامری (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! ہم سالم کو اپنا بیٹا ہی سمجھتے رہے ہیں۔ یہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا رہا ہے اور مجھے (گھر میں عام حالت میں) ایک کپڑے میں دیکھتا رہا ہے۔ (کبھی سر کھلا، تو کبھی پنڈلیاں بھی کھل گئیں وغیرہ) اور اللہ عزوجل نے ایسے لوگوں کے بارے میں جو حکم نازل فرمایا ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ آپ ﷺ اس صورت میں کیا فرماتے ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اس سے کہا: ”اس کو (اپنا) دودھ پلا دو۔“ چنانچہ اس نے اس کو پانچ رضعے (پانچ بار) دودھ پلا دیا۔ اور وہ اس طرح اس کے رضاعی بیٹے کی طرح ہو گیا۔ سو سیدہ عائشہ‬ ؓ ا‬س واقعہ کی بنا پر اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں سے کہا کرتی تھیں کہ فلاں کو پانچ رضعے (پانچ بار) دودھ پلا دو۔ جس کے بارے میں سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ی خواہش ہوتی کہ وہ ان کو دیکھ سکے اور ان کے سامنے آ سکے۔ خواہ وہ بڑی عمر کا بھی ہوتا۔ چنانچہ وہ اس کے بعد ان کے سامنے آ جایا کرتا تھا۔ (اور یہ اس سے پردہ نہ کرتیں) مگر ام سلمہ‬ ؓ ا‬ور دیگر تمام امہات المؤمنین نے اس کو قبول نہیں کیا کہ ایسی رضاعت کی بنا پر کوئی شخص ان کے سامنے آئے (اور وہ اس سے پردہ نہ کریں) الا یہ کہ اس نے پالنے میں (دو سال کی عمر کے دوران میں) دودھ پیا ہوتا۔ انہوں نے عائشہ‬ ؓ س‬ے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم، شاید یہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے سالم کے لیے بمقابلہ دوسرے لوگوں کے خاص رخصت تھی۔