تشریح:
1: قرآن مجید کی تعلیمات اٹل ہیں اور واجب العمل بھی۔ ان میں چون وچرا کی کوئی گنجائش نہیں مگر رسول ﷺکے بیان وتوضیح کے ساتھ جو بسند صحیح ہم تک پہنچ جائے۔
2: جمہورعلماء کے نزدیک دو سال کی عمر کے بعد دودھ پینے پلانے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ حرمت ثابت کرنے والی رضاعت وہ ہے جو مدت رضاعت کے اندر ہو جو کہ دو سال ہے، کم از کم پانچ رضعات ہوں، (رضعت یہ ہے کہ بچہ چھاتی کو منہ میں لے اور دودھ چوسے تو جب تک وہ پستان کو منہ میں لے کر پیتا رہے گا یہ ایک رضعت کہلائے گی، خواہ یہ مدت طویل ہو یاقلیل) اور جو آنتوں کو پھاڑے یعنی اس کی خوراک صرف دودھ ہو جس سے بچہ پلے اور بڑھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ لیث بن سعد، عطاء اور فقہائے اہل ظاہر دوسال کے بعد بھی حرمت رضاعت کے قائل ہیں ان کی دلیل حضرت سالم کا واقعہ ہے لیکن دوسری امہات المومنین کا بیان ہے کہ حضرت سالم کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ امام ابن تیمیہ اور شیخ شوکانی ؒ اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ عمومی حالات میں تو نہیں مگر کہیں خاص اضطراری احوال میں اس پر عمل کی گنجائش ہے۔
3: اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ چہرہ چھپانا پردے کا لازمی حصہ ہے اگر چہ چھپانا ضروری نہ تھا تو اس قدر تردد کی ضرورت ہی کیا تھی۔
4: (رضعہ) کا معنی دیل باب میں دیکھیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري، وصححه الحافظ، ومن قبله ابن الجارود، وهو عنده عن عائشة وحدها. وكذلك أخرجه البخاري، لكنه لم يَسُقْه إلى آخره، وأخرجه مسلم مختصراً عنها، وفي رواية له: إباء أم سلمة وسائر الأزواج الإدخال المذكور) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عنبسة: حدثني يونس عن ابن شهاب: حدثني عروة بن الزبير عن عائشة زوج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط البخاري، وصححه الحافظ في الفتح (9/122) . والحديث أخرجه عبد الرزاق (7/459- 461) ، والبخاري (9/107- 108) ، وابن الجارود (690) من طرق أخرى عن ابن شهاب... به؛ إلا أن البخاري لم يسق قوله: أرضعيه... إلخ؛ وإنما أشار إليه بقوله: الحديث. وهو مخرج في الإرواء (1863) .