تشریح:
دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔ گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔ درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين؛ إلا الزيادة فهي على شرط. البخاري. وقد أخرجه بها بإسناد المصنف، وأخرجه مسلم دون ذكر الأخت، وكذا ابن الجارود؛ لكنه وصل الزيادة بالمتن المرفوع؛ وهو رواية لمسلم. وصحح الترمذي المرفوع منه) . إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك. (ح) وثنا مسدد بن مسرهد: ثنا يحيى عن عبيد الله كلاهما عن نافع عن ابن عمر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين من الوجه الأول، وعلى شرط البخاري وحده من الوجه الآخر؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث في الموطأ (2/69) ... سنداً ومتناً؛ إلا أن الزيادة فيه متصلة بالمتن. وكذلك أخرجه مسلم في رواية، وكذا البخاري وغيرهما عن مالك. وأخرجه البخاري في الحيل ... بإسناد المصنف ومتنه. وأخرجه مسلم من طرق أخرى عن يحيى نحوه. والحديث مخرج في إرواء الغليل (1895) .