عورت کے وہ قریبی نسبی تعلق دار جن کے واسطے سے اہم امور طے پاتے ہیں ،عورت کے ولی کہلاتے ہیں اور بالخصوص اگر کہیں غیروں میں اس کی شادی ہو جائے تو انہیں اس نسبت سے عار کا سامنا کرناپڑتاہے ان میں عصبہ (باپ کی طرف سے تعلق دار ) اولیت رکھتے ہیں ، جمہور علما ءاسی کے قائل ہیں ، امام شافعی ؒ کے بقول ان کی ترتیب اس طرح سے ہے ۔ باپ ،دادا،حقیقی بھائی ،پدری بھائی کا بیٹا،چچا،پھر چچا زاد، امام ابو حنیفہ ؒ ذوی الارحام کو بھی ان میں شامل کرتے ہیں ان میں کوئی نہ ہو تو حاکم وقت "ولی "قرار پاتا ہے ۔
مسئلہ ولایت نکاح :ولایت نکاح کا مسئلہ یعنی جو ان لڑکی کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضا مندی ضروری ہے ،قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے ،لیکن موجودہ مسلمانوں کے اسلام سے عملی انحراف نے جہاں شریعت کے بہت سے مسائل کو غیر اہم بنا دیا ہے ،اس مسئلے سے بھی اغماص اختیار کیا جا رہا ہے ،بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے میں قرآن مجید میں واضح طور رہنمائی نہیں ملتی لیکن ایساسمجھناصحیح نہیں ہے قرآن سے استدلال کا جو طریقہ اور اسلوب ہے اس کی رو سے یقینا ہمیں قرآن سے پوری رہنمائی ملتی ہے قرآن میں فرمایا گیا ہے (و لا تنکحوالمشرکت حتی یومن ولامتہ مومنتہ خیر من مشرکتہ ولو اعجبتکم ولاتنکحوالمشرکین حتی یو منو)(البقرہ 2 /321 )"تم مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح مت کروجب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور ایمان دار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور (اپنی عورتوں کو )مشرک مردوں کے نکاح میں م دو یہاں تک وہ ایمان لے آئیں "
اس آیت میں اللہ تعالی نے عورتوں کی بجائے ام کے اولیا ء کو خطاب فرما یا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کریں۔ قرآن کریم کے اس انداز بیان سھے واضح ہے کہ مسلمان عورت اپنے نکاح کا معاملہ از خود طے نہیں کر سکتی اس کا نکاح کا معاملہ اس کے ولی کی وساطت ہی سے انجام پائے گا ۔ مفسرین امت ان آیت کو اس مسئلے میں "نص"قرار دیا ہے ۔ چنانچہ امام بن اندلسی ؒ فرماتے ہیں (و لاتنکحو)بالا تفاق تاءکے ضمے (پیش)کے ساتھ ہے اور یہ عورتوں کے اولیا سے خطاب ہے ۔
امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں "یہ آیت بطور نص اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں ۔ "امام ابن حزم ؒ فرماتے ہیں "آیت میں یہ خطاب عورت کے اولیا کو ہے نہ عورتوں کو"
علامہ رشیدرضامصری ؒ تفسیر المنار میں فرماتے ہیں :"پہلے (تنکحو) (تاءکے زیر کے ساتھ )اور پھر (تنکحو ) (تاءكے پیش کے ساتھ )تعبیر کرے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرد ہی اپنا اور ان عورتوں کا نکاح کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جن کے معاملات کے وہ ذمے دار ہیں اور عورت مرد کی اجازت کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،اس لئے ضروری ہے "
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں "ولا تنکحوکین حتی یو منو )اور اللہ تعالی کا یہ قول: (ولا تنکحواالمشرکات)جو (فعل لازم اور متعدی کا ) فرق ہے اس سے بھی بعض سلف نے یہ حجت پکڑی ہے کہ عورت از خود نکا ح نہیں کر سکتی ،ان کے نکاح کا بندوبست کرنا اولیا ءکی ذمہ داری ہے ۔ قرآن کریم کے نکاح کردو "اس میں بھی باکرہ اور بیوہ عورتوں کے اولیاء سے خطاب کرکے انہیں ان کے نکاح کا بندوبست کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام بغوی ؒ اس آیت کے ماتحت فرماتے ہیں :"آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ بے شوہر عورتوں کی شادی کا بندوبست کرنا اولیا ء کی ذمے داری ہے اس لئ کہ اللہ تعالئ نے انہیں سے خطاب فرمایاہے ۔
امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں :"یہ اندا ز گفتگو حفا ظت اور صلاح کے باب سے ہے یعنی تم میں سے جو بے شوہر ہے اس کی شادی کر دو ،اس لے کہ یہی عفت وپاک وامنی کا راستہ ہے اور خطاب اولیاءسے ہے ،بعض کے نزدیک یہ خاوندوں سے خطاب ہے ،لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے اس لئے کہ اللہ تعالی اگر خاوندوں سے خطاب کرنا چاہتا تو بغیر ہمزہ (قطعی ) کے تنکحو(انکحو) فرماتا ہے "قرآن کریم کی تیسری آیت ہے :
(واذا طلقتم النساءفبلغں اجلھن اجھلن فلا تعضلو ھن ان ینکحن ازوجھن )(البقرہ2 /232 )"جب عورتوں کو طلاق دے دو وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو تم ان کو اپنے (سابقہ ) خاندانوں سے نکاح کرنے سے مت روکو ۔ "
امام ابن کثیر ؒ حضرت ابن عباس رضی اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں :"یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنی بیوی کو ایک طلاق یا دو طلاقیں دے دے ،پھر اس کی عدت پوری ہو جائے تو خاوند اس سے دوبارہ شادی یا رجوع کرنا چاہے اور عورت بھی اس پر رضا مند ہو لیکن اس کے اولیا اس کو ایساکرنے سے روک دیں تو اللہ تعالی نے اس عورت کو اس طرح عورت کو (شادی کرنے سے)روکنے سے منع فرمایا ہے ۔۔۔۔ امام مسروق ۔ضحاک ،ابراہیم نخعی ،امام زہری ؒ نے بھی کہا ہے کہ یہ آیت اس مسئلے میں نازل ہوئی اور ان لو گوں نے جو یہ بات کہی ہے ،آیت کے ظاہری مفہوم کے عین مطابق ہے اور اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت یہ اختیار نہیں رکھتی کہ وہ اپنا نکاح خود کرلے بلکہ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ امام ترمذی اور امام ابن جریرطبری نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے "
امام ابن جریرطبری فرماتے ہیں "اس آیت سے صاف واضح ہے کہ ان لوگوں کی رائے صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں ۔ اس آیت کے نزول کا جو سبب ہے وہ صحیح روایات میں بیان ہوا ہے ،جس سے آیت کا وہ مفہوم متعین ہو جاتا ہے جو مذکورہ سطور میں مفسرین نے بیان فرمایا ،اس لئے روایت کی شان نزول کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے چنانچہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ میں اپنی ہمشیرہ کا نکاح ایک آدمی سے کیا ،کچھ عرصے کے بعد اس نے طلاق دے دےی حتی کہ جب عدت گزر گئی تو اس نے پھر نکاح کا پیغام بھیجا جس پر میں نے اس سے کہا کہ میں نے اس کے ساتھ تیرا نکاح کیا اس کو تیرا بستر بنایا ،تیری عزت کی لیکن تو نے اسے طلاق دے دی او ان پھر نکاح کا پیغام لےکر آگیا ہے ،اللہ کی قسم !اب وہ کبھی تیری طرف نہیں لوٹے گی اور وہ آدمی بر ا نہیں تھا اور عورت ( میری بہن ) بھی اس کے ساتھ رجوع کرنا چاہتی تھی ،تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی جسے سن کر میں نے کہا : اے اللہ کے رسول !اب میں ان کا آپس میں نکاح کرادوں گا ۔ چنانچہ میں نے اس کے ساتھ اس کا دوبارہ نکاح کردیا ۔ امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں :"یہ آیت معقل بن یسار رضی اللہ کے بارے میں نازم ہوئی ہے جن انہوں نے اپنی بہن کو اپنے پہلے خاوند دوبارہ نکاح کرنے روک دیا تھا ،یہ واقعہ امام بخاری نے نقل کیا ہے اگر اس کے بھائی کو نکاح کرانے کا اختیار نہ ہوتا ،تو اسے یہ کیوں کہا جاتا کہ وہ نکاح کرنے سے نہ روکے ۔
حافظ ان حجر ؒ اس حدیث اس شرح ميں فرماتے ہیں : نکاح میں ولی کے شرط ہونے کی بابت علماءکے درمیان اختلاف ہے ،جمہور اس کے قائل ہیں اورانہوں نے کہا ہے کہ عورت اپنا نکاح از خود نہیں کر سکتی ،انہوں نے اس کا اثبات مذکورہ احادیث سے کیا ہے اور ا ن میں سن سے قوی دلیل یہی واقعہ ہے جو قرآن کریم کی آیت مذکورہ کے نزول کا سبب ہے اور یہ آیت بات پرکہ نکاح میں ولی کی رضامندی ضروری ہے سب سے واضح دلیل ہے کیو نکہ اگرایسا نہ ہو تو یہ کہنےکا کہ "انہیں مت روکو " کوئی معنی نہیں رہتے ،علاو ہ ازیں اگر وہ عورت ازخود نکاح کرنے کی مجاز ہوتے تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی ۔ اور صاحب سبل اسلام امیر صنعائی ؒ فرماتے ہیں : نبی ﷺکے زمانے میں صحابہ (سلف)ٰ نے واقعے سے یہی بات سمجھی ہے کہ اولیا کی اجازت ضروری ہے اور انہوں نے قسم کا کفارہ ادا کرنے اور نکاح کرنے میں جلدی کی (یہ اشارہ ہے بعض روایات کی رو سے حضرت معقل کے قسم کھا لینے اور پھر اس توڑکر اپنی بہن کا نکاح کردینے کی طرف )اگر اولیاءکا عورتوں پر اختیار ہی ہوتا ،تو اللہ تعالی اسے کھول کر بیان فرما دیتا بلکہ اس کے بر عکس اللہ نے متعدد آیات میں اولیا ء کے حق کو تکرار کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور ایک حرف بھی اس امر کی بابت نہیں بو لا کہ عورت کو ازخود اپنانکاح کرنےکا حق حاصل ہے اس سے اس طرف بھی رہنمائی ملتی ہے کہ جن آیات میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہے جیسے جیسے (حتی تنکح زوجا غیرہ )(البقرہ 2 /230 )اس سے مراد بھی ولی کی اجازت سے ان کا نکاح کا انعقاد ہےنہ کہ ازخود نکاح کر لینا اس لئے کہ اگر اس آیت سے نبی کریم ﷺ یہ سمجھتے کہ عورت ازخود اپنا نکاح کر سکتی ہے تو آپ اس آیت نزول کے بعد اس عورت کو خود اپنا نکاح کر لینے کا حکم فر ما دیتے اور اس کے بھائی پر یہ واضح کر دیتے کہ تجھے اس ولایت کا حق نہیں ہے اور اس کے لئے اپنی قسم کا توڑنا اوراس کا کفارہ ادا کرنا جائز نہ ہوتا ۔
اب ہم ذیل میں چند احادیث ذکر کرتے ہیں جن میں پوری صراحت سے ولایت نکاح کا مسئلہ بیان ہوا ہے :
1 : ( لانکاح الا بولی )سنن ابی داود،النکاح ،باب فی الولی ،حدیث2085 ) "ولی کے بغیرنکاح صحیح نہیں ، "یہ روایت جسے متواتر تک کہا گیا ہے ،حضرت موسی اشعری ،حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ چار صحابہ سے مروی ہے ۔
2 : حضرت عائشہ رضی اللہ سے مرفوع روایت ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو وہ نکاح باطل ہے ،وہ نکاح باطل ہے ،وہ نکاح باطل ہے ،اگر ان کا آپس میں ملاپ ہو گیا ہے تو اس کی وجہ حق مہر اس عورت کو دیا جائے گا ،اگر(اولیا ء کا ) اختلاف اور جھگڑا ہو تو سلطان وقت ہر اس عورت کا ولی ہو گا جس کا کوئی ولی نہ ہو"یہ روایت سندا صحیح اور مسئلہ زیر بحث میں واضح اور فیصلہ کن ہے۔
3 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا "کوئی عورت،عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے "اس حدیث میں ولایت کے لئے مرد کو خروری قرار دیا گیا ہے یعنی باپ کی بجائے ماں ولی نہیں بن سکتی ،نہ لڑکی ازخود اپنانکاح کر سکتی ہے ،باپ نہ ہو تو اس کاچچا،بھائی وغیرہ ولی بنے گا ،کوئی بھی نہیں ہو گا تو حاکم وقت یا قاضی اس کا ولی ہو گا جیسا کہ اس سے ماقبل کی حدیث میں ہے ۔
4 : صحیح بخاری میں حضرتگ عائشہ رضی اللہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتی ہیں " زمانہ جاہلیت میں نکاح کی چار قسمیں تھیں ،ایک قسم وہ لوگوں میں آج کل رائج ہے کہ ایک دوسرے کو اس کی کسی عزیزہ بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ہے ،وہ اسےقبول کرکے اس کے لئے حق مہر کا تعین کر دیتا ہے ،(اس کے بعد نکاح کی تین قسمیں اور بیان کیں ہیں اور آخر میں فرمایا) حضرت محمد ﷺحق کے ساتھ معبوث ہو ئے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاحوں کو ختم کردیا اور صرف آجکل کے رائج نکاح کو باقی رکھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سلام نے صر اس نکاح کو جائز رکھا ہے جو ولی کی وساطت سے کیا گیا ہو ،باقی تمام نکاح باطل کر دیے۔
اسلام کی مذکورہ تعلیم میں بڑا اعتدال وتوازن ہے ،لڑکی کو تا کید ہے کہ والدین نے اسے پالا پوسا ہے ،اس کی تعلیم و تر بیت کا اہتمام کیا ہے ،وہ مستقبل میں بھی جب کہ وہ اپنی نوجوان بچی کو دوسرے خاندان میں بھیج رہے ہیں ،اس کے لئے روشن امکانات دیکھ رہے ہیں اور اس کی روشنی ہی میں انہوں نے اس مستقبل کا فیصلہ کیا ہے ،اس لیے وہ اپنے محسن ،خیر خواہ اور مشفق وہمدردوالدین کے فیصلے کو رضا مندی سے قبول کر لے ۔ دوسری طرف والدین کو لڑکی پر جبر کرنے اور اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع کر دیا ہے اگر کوئی ولی بالجبر ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فقہانے ایسے ولی کو ولی عاضل (غیر مشفق ) قراردے کر ولی ابعد کو آگے بڑھ کر اس کی شادی کرنے ککی تلقین کی ہے ،ولی ابعد بھی کسی وجہ سے اس کا اہتمام کرنے سے قاصر ہو تو عدالت یا پنچایت یہ فریضہ سر انجام دے گی ۔
آج کل کی عدالتوں میں نوجوان لڑکیوں کے ازخود نکاح کرنے کے جو مقدمات پیش ہو رہے ہیں ،ان میں مذکورہ دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کا تعین اور تحقق کیے بغیرصرف اس بنیاد پر فیصلہ کرنا یا بعض علما کا فتوی دینا کہ نو جوان لڑکی کی ولایت کی محتاج نہیں ہے ،اس لئے یہ نکاح جائز ہے ۔ قرآن و حدیث کی رو سے اور صحابہ رضی اللہ اور جمہور علما ء وفقہا کے مسلک کی روشنی میں بابکل غلط ہے ۔ عدالتیں اگرقرآن وحدیث کو اپنا حکم مانتی ہیں تو وہ ایسا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں اور علماء بھی اگر (فان تنازعتم فئ شئ ء فردوہ الی اللہ والرسول )(النساء59 ) "اگر تمہارے درمیان کسی چیز کی بابت جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔ "پر صدق ول سے عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بھی مذکورہ نکاحوں کے جواز کا مطلقا فتوی دینے سے گریز کرنا چاہیے ،کیونکہ ولی کی اجازت کے بغیر کو ئی نکاح صحیح نہیں ہے ۔ ولی جابر یا عاضل ہو گا تو ولی البعد عدالت نکاح کرائے گی ۔ لیکن کسی بالغ لڑکی کو یہ حق حاصل نہیں ہے وہ بھاگ کر یا چھپ کر اپنا نکاح خود کر لے ۔(مزید تفصیل کیلئے دیکھئے:حافظ صلاح الدین یوسف کی تالیف’’مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں‘‘مطبوعہ دارالسلام)