قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ فِي تَزْوِيجِ مَنْ لَمْ يُولَدْ)

حکم : ضعیف 

2103. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ مِقْسَمٍ الثَّقَفِيُّ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ حَدَّثَتْنِي سَارَةُ بِنْتُ مِقْسَمٍ, أَنَّهَا سَمِعَتْ مَيْمُونَةَ بِنْتَ كَرْدَمٍ، قَالَتْ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي فِي حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ، فَوَقَفَ لَهُ وَاسْتَمَعَ مِنْهُ، وَمَعَهُ دِرَّةٌ كَدِرَّةِ الْكُتَّابِ، فَسَمِعْتُ الْأَعْرَابَ وَالنَّاسَ وَهُمْ يَقُولُونَ: الطَّبْطَبِيَّةَ، الطَّبْطَبِيَّةَ، الطَّبْطَبِيَّةَ، فَدَنَا إِلَيْهِ أَبِي، فَأَخَذَ بِقَدَمِهِ، فَأَقَرَّ لَهُ وَوَقَفَ عَلَيْهِ، وَاسْتَمَعَ مِنْهُ، فَقَالَ: إِنِّي حَضَرْتُ جَيْشَ عِثْرَانَ- قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: جَيْشَ غِثْرَانَ- فَقَالَ طَارِقُ بْنُ الْمُرَقَّعِ: مَنْ يُعْطِينِي رُمْحًا بِثَوَابِهِ قُلْتُ: وَمَا ثَوَابُهُ؟ قَالَ: أُزَوِّجُهُ أَوَّلَ بِنْتٍ تَكُونُ لِي! فَأَعْطَيْتُهُ رُمْحِي، ثُمَّ غِبْتُ عَنْهُ، حَتَّى عَلِمْتُ أَنَّهُ قَدْ وُلِدَ لَهُ جَارِيَةٌ، وَبَلَغَتْ، ثُمَّ جِئْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَهْلِي جَهِّزْهُنَّ إِلَيَّ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَفْعَلَ، حَتَّى أُصْدِقَهُ صَدَاقًا جَدِيدًا غَيْرَ الَّذِي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَحَلَفْتُ لَا أُصْدِقُ غَيْرَ الَّذِي أَعْطَيْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >وَبِقَرْنِ أَيِّ النِّسَاءِ هِيَ الْيَوْمَ؟ قَالَ: قَدْ رَأَتِ الْقَتِيرَ! قَالَ: أَرَى أَنْ تَتْرُكَهَا قَالَ: فَرَاعَنِي ذَلِكَ، وَنَظَرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ مِنِّي, قَالَ: لَا تَأْثَمُ، وَلَا يَأْثَمُ صَاحِبُكَ. قَالَ أَبو دَاود: الْقَتِيرُ الشَّيْبُ.

مترجم:

2103.

سیدہ میمونہ بنت کردم‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ چلیو اس حج کے موقع پر جب کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کیا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھاو میرے والد ان کے قریب ہوئے۔ آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر تھے۔ آپ ﷺ ان کی خاطر رک گئے، میرے والد نے آپ سے مفید مطلب باتیں سنیں۔ آپ کے پاس درہ تھا جیسے کہ معلم لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔ میں نے بدویوں کو اور لوگوں کو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے «الطبطبية الطبطبية الطبطبية» (چلتے ہوئے پاؤں پڑنے کی آواز۔ طب طب۔ یا کوڑا مارنے کی آواز) میرے والد آپ ﷺ کے قریب ہوئے، آپ کے قدم مبارک پکڑ لیے، آپ کی رسالت کا اقرار کیا، آپ کے پاس کھڑے رہے اور آپ کے ارشادات سنے۔ میرے والد نے بتایا کہ میں لشکر عشران میں شریک ہوا تھا۔ ابن مثنی نے اس کو غثران کہا: (غین منقوط کے ساتھ) (یہ دور جاہلیت کی ایک جنگ کا واقعہ ہے۔) اس دوران میں طارق بن مرقع نے کہا: تھا کون ہے جو مجھے اپنا نیزہ دے اور اس کا بدلہ پائے؟ میں نے کہا: اس کا بدلہ کیا ہے؟ کہا: میں اس کے ساتھ اپنی اس بیٹی کا نکاح کر دوں گا جو سب سے پہلے پیدا ہو گی۔ چنانچہ میں نے اس کو اپنا نیزہ دے دیا، پھر اس سے غائب رہا حتیٰ کہ مجھے علم ہوا کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اب بالغ ہو چکی ہے۔ پھر میں اس کے پاس گیا، اور اس سے کہا کہ میرے گھر والوں (میری بننے والی بیوی) کو میری طرف تیار کر دو۔ تو اس نے قسم اٹھائی کہ وہ ایسا نہیں کرے گا حتیٰ کہ میں اسے نیا مہر پیش کروں، بخلاف اس کے جو میرے اور اس کے درمیان ہو چکا تھا۔ اور میں نے بھی قسم اٹھا لی کہ جو دے چکا ہوں بس وہی ہے اور نہیں دوں گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: ”اور اب وہ لڑکی کس عمر میں ہے؟ کہا کہ اب تو اس کے بالوں میں سفیدی آ گئی ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تو اسے چھوڑ دے۔“ آپ کی یہ بات مجھے پریشان کر گئی۔ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا۔ جب آپ نے میری یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا: ”نہ تم گناہ گار بنو اور نہ تمہارا ساتھی گناہ گار بنے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: «القتير» کا معنی بالوں کی سفیدی (بڑھاپا) ہے۔