1: سورۃ الطلاق میں ہے کہ (وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ) (الطلاق:4) اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وضع حمل ہو جائے اور اس سورت کو سورۃالنساء القصر۔ (چھوٹی سورۃ النسا) اس لیے کہا کہ جہاں معروف بڑی سورۃنساء میں عورتوں کے احکام ومسائل بیان ہوئے ہیں، وہاں اس سورت میں بھی انہی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔
2: حضرت عبداللہ رضی اللہ کا یہ قول معروف فقہی اصول کی اساس ہے کہ کسی مسئلے میں جہاں کہیں دو ہدایات وارد ہوں ان میں سے قابل عمل وہی ہوتی ہے جو بعد میں نازل ہوئی ہو۔
3: سورۃ البقرہ کی آیت کریمہ (والذینَ یُتوفونَ منکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أشھُرٍ و عَشرًا) (البقرة: 234) اور سورۃ الطلاق کی آیت میں تعارض نہیں ہے، بلکہ چار ماہ دس دن کی عدت ایسی عورتوں کے لئے جو حمل سے نہ ہوں اوراگر حمل ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔