تشریح:
1۔ یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔ جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔ 2۔ یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔ لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔ نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔ یہ ایک جہادی سفر تھا۔
3۔ کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود العَتَكِيّ: ثنا حَمَّاد بن زيد عن يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حَبّان عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (6/67) ، ومسلم (6/50) ، والنسائي (2/64) ، والدارمي (2/210) ، وابن ماجه (2/177) ، والبيهقي (9/166) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به. وكذا رواه أحمد (6/423) . ثم أخرجه هو (6/361 و 423) ، والبخاري (6/14) ، والبيهقي من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد... به. وله طريق أخرى عن أنس، وهي الآتية بعده: