باب: غیر مجاہدین پر مجاہدوں کی خواتین کی حرمت و احترام کا بیان
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding The Sanctity Of The Womenfolk Of The Mujahidin To Those Who Do Not Participate)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2503.
جناب (سلیمان) ابن بریدہ اپنے والد (بریدہ ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خانہ نشین لوگوں پر مجاہدین کی عورتوں کی عزت و حرمت ایسے (واجب اور لازم) ہے جیسے کہ ان کی اپنی مائیں ہوں، جو کوئی (جہاد سے) پیچھے رہے اور مجاہدین کے اہل میں خیانت (بدنظری یا خباثت) کا معاملہ کرے تو قیامت کے روز ایسے شخص کے لیے جھنڈا لگایا جائے گا اور (اسے اہل محشر میں رسوا کرتے ہوئے) مجاہد سے کہا جائے گا یہی شخص ہے جو تیرے پیچھے تیرے اہل میں برائی کرتا رہا، اس کی نیکیوں میں سے جو لینا چاہتا ہے، لے لے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تو تمہارا کیا خیال ہے؟“ (بھلا وہ کچھ چھوڑے گا، یعنی ہرگز نہیں، سبھی نیکیاں سمیٹ لے گا)۔ امام ابوداؤد ؓ بیان کرتے ہیں کہ راوی حدیث قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے ان کو قاضی بنانا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے ایک درہم کی کوئی معمولی چیز بھی لینی ہوتی ہے تو دوسرے آدمی کی مدد لیتا ہوں (تو قضاء و عدالت کی ذمہ داریاں کیسے اٹھا سکتا ہوں؟) انہوں نے کہا: ہم میں سے کون ہے جسے دوسرے کی مدد کی ضرورت نہ پڑتی ہو؟ انہوں نے کہا: اب تو اجازت دیں میں کچھ سوچ لوں۔ چنانچہ اجازت دی گئی تو چھپ گئے۔ سفیان بیان کرتے ہیں کہ اسی کیفیت میں تھے کہ گھر کی چھت گر پڑی اور اس سے وفات پا گئے۔
تشریح:
مجاہدین جو جہاد وقتال میں مشغول ومصروف ہوں۔ ان کے اہل وعیال کی جان مال اور آبرو کی حفاظت اور ان کی خدمت کرنا انتہائی اجر وثواب کا کام ہے۔ اور ان میں خیانت وخباثت کا مظاہرہ ایسے ہے، جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اور اسی پر ان لوگوں کو قیاس کیا گیا ہے۔ جو دین اسلام کی دیگر فکری حدود مثلا تعلیم وتعلم کے سلسلے میں اپنے گھروں سے غائب ہوں۔ تو ان کے اقرباء اور دیگر افراد معاشرہ پر لازم ہے۔ کہ ان کے اہل وعیال کے تحفظ وحرمت کا پوری طرح خیال ر کھیں، جیسے کہ اپنی مائوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة وابن حبان) . إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا سفيان عن قَعْنَب عن علقمة بن مَرْثَد عن ابن بريدة عن أبيه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. وابن بريدة: هو سليمان. وقعنب: هو التميمي الكوفي. وسفيان: هو ابن عيينة. والحديث أخرجه مسلم (6/43) ... بإسناد المصنف ومتنه. وأخرجه البيهقي (9/173) عن المصنف. وأخرجه الحميدي في مسنده (907) ، وعنه البيهقي أيضاً: ثنا سفيان...به. وأخرجه النسائي (2/67) : أخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن: حدثنا سفيان... به؛ وزاد في آخره: ترون يدع من حسناته شيئاً؟! . ثم أخرجه هو، ومسلم وأحمد (5/352 و 355) ، وابن حبان (4615 و 4616) ، وأبو عوانة (5/69- 73) - وبعضهم جعله من رواية عبد الله بن بريدة- من طرق أخرى عن علقمة بن مرثد... به. وزاد مسلم- بعد قوله: في أهله -: فيخونه فيهم . ولأحمد معناها.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
جناب (سلیمان) ابن بریدہ اپنے والد (بریدہ ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خانہ نشین لوگوں پر مجاہدین کی عورتوں کی عزت و حرمت ایسے (واجب اور لازم) ہے جیسے کہ ان کی اپنی مائیں ہوں، جو کوئی (جہاد سے) پیچھے رہے اور مجاہدین کے اہل میں خیانت (بدنظری یا خباثت) کا معاملہ کرے تو قیامت کے روز ایسے شخص کے لیے جھنڈا لگایا جائے گا اور (اسے اہل محشر میں رسوا کرتے ہوئے) مجاہد سے کہا جائے گا یہی شخص ہے جو تیرے پیچھے تیرے اہل میں برائی کرتا رہا، اس کی نیکیوں میں سے جو لینا چاہتا ہے، لے لے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تو تمہارا کیا خیال ہے؟“ (بھلا وہ کچھ چھوڑے گا، یعنی ہرگز نہیں، سبھی نیکیاں سمیٹ لے گا)۔ امام ابوداؤد ؓ بیان کرتے ہیں کہ راوی حدیث قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے ان کو قاضی بنانا چاہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے ایک درہم کی کوئی معمولی چیز بھی لینی ہوتی ہے تو دوسرے آدمی کی مدد لیتا ہوں (تو قضاء و عدالت کی ذمہ داریاں کیسے اٹھا سکتا ہوں؟) انہوں نے کہا: ہم میں سے کون ہے جسے دوسرے کی مدد کی ضرورت نہ پڑتی ہو؟ انہوں نے کہا: اب تو اجازت دیں میں کچھ سوچ لوں۔ چنانچہ اجازت دی گئی تو چھپ گئے۔ سفیان بیان کرتے ہیں کہ اسی کیفیت میں تھے کہ گھر کی چھت گر پڑی اور اس سے وفات پا گئے۔
حدیث حاشیہ:
مجاہدین جو جہاد وقتال میں مشغول ومصروف ہوں۔ ان کے اہل وعیال کی جان مال اور آبرو کی حفاظت اور ان کی خدمت کرنا انتہائی اجر وثواب کا کام ہے۔ اور ان میں خیانت وخباثت کا مظاہرہ ایسے ہے، جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ یہ معاملہ کرے۔ اور اسی پر ان لوگوں کو قیاس کیا گیا ہے۔ جو دین اسلام کی دیگر فکری حدود مثلا تعلیم وتعلم کے سلسلے میں اپنے گھروں سے غائب ہوں۔ تو ان کے اقرباء اور دیگر افراد معاشرہ پر لازم ہے۔ کہ ان کے اہل وعیال کے تحفظ وحرمت کا پوری طرح خیال ر کھیں، جیسے کہ اپنی مائوں کا تحفظ کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”پھر تم کیا سمجھتے ہو۱؎؟“ ابوداؤد کہتے ہیں: قعنب ایک نیک آدمی تھے، ابن ابی لیلیٰ نے قعنب کو قاضی بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اس سے انکار کیا، اور کہا کہ میں ایک درہم میں اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں کسی آدمی کی مدد لے سکوں، پھر کہا: کون ہے جو اپنی ضرورت کے لیے کسی سے مدد نہیں لیتا، پھر عرض کیا: تم لوگ مجھے نکال دو یہاں تک کہ میں دیکھوں (کہ کیسے میری ضرورت پوری ہوتی ہے) تو انہیں نکال دیا گیا، پھر وہ (ایک مکان میں) چھپ گئے، سفیان کہتے ہیں: اسی دوران کہ وہ چھپے ہوئے تھے وہ مکان ان پر گر پڑا اور وہ مر گئے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی نیکیاں لینے والے کی رغبت اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹ لینے کی اس کی چاہت کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے پاس کوئی نیکی باقی ہی نہیں رہ جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Buraidah reported the Apostle of Allah (ﷺ) as saying “Respect to be shown by those who stay at home to the women of those who are engaged in jihad is t be like that shown to their mothers. If any man among those who stay at home is entrusted with the oversight of one’s family who is engaged in jihad and betrays him, he will be setup for him on the Day of Resurrection and he (the mujahid) will be told “This (man) was entrusted with the oversight of your family, so take what you want from his good deeds. The Apostle of Allah (ﷺ) turned towards us and said “So what do you think”. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said “Qa’nab (a narrator of this tradition) was a pious man. Ibn Abi Laila intended to appoint him a judge, but he refused and said “If I intend to fulfill my need of a dirham, I seek the help of a person for it. He said “Which of us does not seek the help in his need? He said “Bring me out so that I may see. So he was brought out, and he concealed himself. Sufyan said “While he was concealing himself.” Sufyan said “While he was concealing himself the house suddenly fell on him and he died”.