Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding A Spy Who Is Under Protection (In A Muslim Territory))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2661.
سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) نے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قبیلہ ہوازن پر جہاد کیا۔ اتفاق سے ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے اور ہم میں اکثر مجاہدین پیدل تھے اور کچھ لوگ کمزور بھی تھے، اتنے میں ایک شخص آیا جو سرخ اونٹ پر سوار تھا، اس نے اونٹ کی کمر سے رسی نکالی، اس سے اس کو باندھا اور آ کر لوگوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ مجاہدین میں کمزور لوگ ہیں اور ان میں سواریوں کی بھی کمی ہے تو وہاں سے نکلا، بھاگتا ہوا اپنے اونٹ کے پاس پہنچا اور اسے کھولا، اس کو بٹھایا، خود اس پر بیٹھا اور پھر اسے دوڑاتے ہوئے چل دیا۔ (اس وقت ہم کو یقین ہو گیا کہ یہ جاسوس ہے) چنانچہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص اپنی خاکستری اونٹنی پر اس کے تعاقب میں گیا، اور یہ اونٹنی ہماری سب سواریوں سے عمدہ سواری تھی۔ سلمہ کہتے ہیں: میں پیدل ہی بھاگتا ہوا اس کے پیچھے گیا اور اسے جا لیا جبکہ اونٹنی کا سر اونٹ کی ران کے پاس تھا اور میں اونٹنی کی پچھلی ٹانگوں کے ساتھ تھا۔ پھر میں آگے بڑھا حتیٰ کہ اونٹ کی پچھلی ٹانگوں کے پاس پہنچ گیا۔ میں اور آگے بڑھا حتیٰ کہ اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور پھر اس کو بٹھا لیا۔ جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار نکالی اور اس سوار کے سر پر دے ماری تو وہ کٹ کر دور جا گرا، چنانچہ میں اس کا اونٹ اور جو اس پر تھا سب ہانک کر لے آیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا: ”اس آدمی کو کس نے قتل کیا ہے؟“ صحابہ نے کہا: سلمہ بن اکوع نے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا سارا اسباب اسی کا ہے۔“ (امام ابوداؤد ؓ کے شیخ) ہارون نے کہا: اس روایت کے الفاظ ہاشم بن قاسم کے ہیں۔
تشریح:
1۔ کافر جاسوس خواہ مستامن ہی ہو۔ (اجازت لے کر مسلمانوں کے پاس لے کر آیا ہو) قتل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ حربی کافروں میں شامل ہے۔ 2۔ کافر مقتول کا خاص سامان اس کے قاتل مجاہد کو دیا جاتا ہے۔ اسے سلب کہتے ہیں۔ 3۔ جہاد میں کامیابی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تقویٰ ہے۔ دیگر وسائل محض ظاہری اسباب ہوتے ہیں۔ لیکن ان سے صرف نظر کرنا جائز نہیں۔ 4۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوعمر جوان تھے۔ اور تیز دوڑنے میں نہایت ممتاز تھے۔ اس لئے اونٹ سوار کو جا پکڑا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده جيد على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في صحيحيهما ) . إسناده: حدثنا هارون بن عبد الله أن هاشم بن القاسم وهشاماً حدثاهم قالا: ثنا عكرمة قال: حدثني إياس بن سلمة. قال هارون: هذا لفظ هاشم.
قلت: وهذا إسناد جيد على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. والحديث أخرجه أحمد (4/49) : ثنا هاشم بن القاسم... به. ثم أخرجه هو (4/51) ، ومسلم (5/150) ، وأبو عوانة (4/119- 122) وغيرهم من طرق أخرى عن عكرمهَ بن عمار... به. وهو مخرج في الإرواء (1222) .
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) نے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قبیلہ ہوازن پر جہاد کیا۔ اتفاق سے ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے اور ہم میں اکثر مجاہدین پیدل تھے اور کچھ لوگ کمزور بھی تھے، اتنے میں ایک شخص آیا جو سرخ اونٹ پر سوار تھا، اس نے اونٹ کی کمر سے رسی نکالی، اس سے اس کو باندھا اور آ کر لوگوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ مجاہدین میں کمزور لوگ ہیں اور ان میں سواریوں کی بھی کمی ہے تو وہاں سے نکلا، بھاگتا ہوا اپنے اونٹ کے پاس پہنچا اور اسے کھولا، اس کو بٹھایا، خود اس پر بیٹھا اور پھر اسے دوڑاتے ہوئے چل دیا۔ (اس وقت ہم کو یقین ہو گیا کہ یہ جاسوس ہے) چنانچہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص اپنی خاکستری اونٹنی پر اس کے تعاقب میں گیا، اور یہ اونٹنی ہماری سب سواریوں سے عمدہ سواری تھی۔ سلمہ کہتے ہیں: میں پیدل ہی بھاگتا ہوا اس کے پیچھے گیا اور اسے جا لیا جبکہ اونٹنی کا سر اونٹ کی ران کے پاس تھا اور میں اونٹنی کی پچھلی ٹانگوں کے ساتھ تھا۔ پھر میں آگے بڑھا حتیٰ کہ اونٹ کی پچھلی ٹانگوں کے پاس پہنچ گیا۔ میں اور آگے بڑھا حتیٰ کہ اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور پھر اس کو بٹھا لیا۔ جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار نکالی اور اس سوار کے سر پر دے ماری تو وہ کٹ کر دور جا گرا، چنانچہ میں اس کا اونٹ اور جو اس پر تھا سب ہانک کر لے آیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا: ”اس آدمی کو کس نے قتل کیا ہے؟“ صحابہ نے کہا: سلمہ بن اکوع نے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا سارا اسباب اسی کا ہے۔“ (امام ابوداؤد ؓ کے شیخ) ہارون نے کہا: اس روایت کے الفاظ ہاشم بن قاسم کے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ کافر جاسوس خواہ مستامن ہی ہو۔ (اجازت لے کر مسلمانوں کے پاس لے کر آیا ہو) قتل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ حربی کافروں میں شامل ہے۔ 2۔ کافر مقتول کا خاص سامان اس کے قاتل مجاہد کو دیا جاتا ہے۔ اسے سلب کہتے ہیں۔ 3۔ جہاد میں کامیابی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تقویٰ ہے۔ دیگر وسائل محض ظاہری اسباب ہوتے ہیں۔ لیکن ان سے صرف نظر کرنا جائز نہیں۔ 4۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوعمر جوان تھے۔ اور تیز دوڑنے میں نہایت ممتاز تھے۔ اس لئے اونٹ سوار کو جا پکڑا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن الاکوع ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوازن کا غزوہ کیا، وہ کہتے ہیں: ہم چاشت کے وقت کھانا کھا رہے تھے، اور اکثر لوگ ہم میں سے پیدل تھے، ہمارے ساتھ کچھ ناتواں اور ضعیف بھی تھے کہ اسی دوران ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار ہو کر آیا، اور اونٹ کی کمر سے ایک رسی نکال کر اس سے اپنے اونٹ کو باندھا، اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا، جب اس نے ہمارے کمزوروں اور سواریوں کی کمی کو دیکھا تو اپنے اونٹ کی طرف دوڑتا ہوا نکلا، اس کی رسی کھولی پھر اسے بٹھایا اور اس پر بیٹھا اور اسے ایڑ لگاتے ہوئے تیزی کے ساتھ چل پڑا (جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ جاسوس ہے) تو قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی خاکستری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کا پیچھا کیا اور یہ لوگوں کی سواریوں میں سب سے بہتر تھی، پھر میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا اور حال یہ تھا کہ اونٹنی کا سر اونٹ کے پٹھے کے پاس اور میں اونٹنی کے پٹھے پر تھا، پھر میں تیزی سے آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میں اونٹ کے پٹھے کے پاس پہنچ گیا، پھر آگے بڑھ کر میں نے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور اسے بٹھایا، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا تو میں نے تلوار میان سے نکال کر اس کے سر پر ماری تو اس کا سر اڑ گیا، میں اس کا اونٹ مع ساز و سامان کے کھینچتے ہوئے لایا تو لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے آ کر میرا استقبال کیا اور پوچھا: ”اس شخص کو کس نے مارا؟“ لوگوں نے بتایا: سلمہ بن اکوع نے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کا سارا سامان انہی کو ملے گا۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امن حاصل کرنے والے کافر کے متعلق اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ جاسوس ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salamah (bin Al Akwa’) said “I went on an expedition with the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) against Hawazin and while we were having a meal in the forenoon and most of our people were on foot and some of us were weak, a man came on a red Camel. He took out a rope from the lion of the Camel and tied his Camel with it and began to take meal with the people. When he saw the weak condition of their people and lack of mounts he went out in a hurry to his Camel, untied it made it kneel down and sat on it and went off galloping it. A man of the tribe of Aslam followed him on a brown she Camel which was best of those of the people. I hastened out and I found him while the head of the she Camel was near the paddock of the she Camel. I then went ahead till I reached near the paddock of the Camel. I then went ahead till I caught the Camel’s nose string. I made it kneel. When it placed its knee on the ground, I drew my sword and struck the man on his head and it fell down. I then brought the Camel leading it with (its equipment) on it. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) came forward facing me and asked “Who killed the man? They (the people) said “Salamah bin Akwa’. He said “he gets all his spoil”. Harun said “This is Hashim’s version.