Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding The Salab (Spoils) Being Given To The Person Who Killed)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2725.
سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حنین کی طرف روانہ ہوئے۔ جب کفار کے مقابلے میں آئے، تو مسلمانوں میں بہت گڑبڑ مچی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھائی کر رہا تھا۔ میں گھوم کر اس کے پیچھے سے آیا اور اس کی گردن کے پاس تلوار ماری، تو وہ میری طرف آیا اور مجھے (پکڑ کر) اس قدر بھینچا کہ میں نے اس سے موت کی بو پائی۔ پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ (کہ بھاگ کھڑے ہوئے ہیں) انہوں نے کہا: بس یہ ﷲ کا کرنا ہے۔ پھر لوگ لوٹ آئے۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور فرمایا: ”جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کا گواہ بھی ہو تو اس مقتول کا اسباب اسی کا ہے۔“ (ابوقتادہ) کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا: کوئی ہے جو میری گواہی دے؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دوسری بار یہی بات فرمائی کہ ”جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کا گواہ بھی ہو تو اس کا اسباب اسی کا ہے۔“ کہتے ہیں کہ میں پھر اٹھا اور کہا: میرے متعلق گواہی کون دیتا ہے؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا، تو میں کھڑا ہوا، پس رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”ابوقتادہ! کیا بات ہے؟“ میں نے اپنا قصہ بیان کیا۔ تو جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اﷲ کے رسول! یہ سچ کہتا ہے اور اس مقتول کا اسباب میرے پاس ہے۔ آپ اسے اس کے بارے میں راضی فرما دیجئیے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: نہیں، قسم اﷲ کی! (یہ نہیں ہو سکتا) کہ وہ (کافر) ﷲ کے شیروں میں سے ایک شیر کا قصد کرے جو ﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑ رہا ہو، اور آپ اس کا سلب (اسباب) تجھے دے دیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ابوبکر نے) سچ کہا: وہ اسباب اسے دے دو۔“ ابوقتادہ بیان کرتے ہیں چنانچہ وہ اس نے مجھے دے دیا۔ پھر میں نے زرہ بیچی تو اس سے بنی سلمہ میں ایک باغ خریدا۔ اور وہ میری پہلی جائیداد تھی جو میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کی۔
تشریح:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔ اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔ یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔ اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ (نیل الأوطار: 305/7)
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حنین کی طرف روانہ ہوئے۔ جب کفار کے مقابلے میں آئے، تو مسلمانوں میں بہت گڑبڑ مچی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھائی کر رہا تھا۔ میں گھوم کر اس کے پیچھے سے آیا اور اس کی گردن کے پاس تلوار ماری، تو وہ میری طرف آیا اور مجھے (پکڑ کر) اس قدر بھینچا کہ میں نے اس سے موت کی بو پائی۔ پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ (کہ بھاگ کھڑے ہوئے ہیں) انہوں نے کہا: بس یہ ﷲ کا کرنا ہے۔ پھر لوگ لوٹ آئے۔ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور فرمایا: ”جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کا گواہ بھی ہو تو اس مقتول کا اسباب اسی کا ہے۔“ (ابوقتادہ) کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا: کوئی ہے جو میری گواہی دے؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دوسری بار یہی بات فرمائی کہ ”جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کا گواہ بھی ہو تو اس کا اسباب اسی کا ہے۔“ کہتے ہیں کہ میں پھر اٹھا اور کہا: میرے متعلق گواہی کون دیتا ہے؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا، تو میں کھڑا ہوا، پس رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”ابوقتادہ! کیا بات ہے؟“ میں نے اپنا قصہ بیان کیا۔ تو جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا: اے اﷲ کے رسول! یہ سچ کہتا ہے اور اس مقتول کا اسباب میرے پاس ہے۔ آپ اسے اس کے بارے میں راضی فرما دیجئیے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: نہیں، قسم اﷲ کی! (یہ نہیں ہو سکتا) کہ وہ (کافر) ﷲ کے شیروں میں سے ایک شیر کا قصد کرے جو ﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑ رہا ہو، اور آپ اس کا سلب (اسباب) تجھے دے دیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”(ابوبکر نے) سچ کہا: وہ اسباب اسے دے دو۔“ ابوقتادہ بیان کرتے ہیں چنانچہ وہ اس نے مجھے دے دیا۔ پھر میں نے زرہ بیچی تو اس سے بنی سلمہ میں ایک باغ خریدا۔ اور وہ میری پہلی جائیداد تھی جو میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کی۔
حدیث حاشیہ:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔ اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔ یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔ اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ (نیل الأوطار: 305/7)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب ؓ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہی ہوا جو اللہ کا حکم تھا، پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور فرمایا: ”جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا۱؎۔“ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں: (جب میں نے یہ سنا) تو میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا، پھر آپ ﷺ نے دوسری بار فرمایا: ”جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس کا سامان اسی کو ملے گا۔“ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں (جب میں نے یہ سنا) تو اٹھ کھڑا ہوا، پھر میں نے سوچا میرے لیے کون گواہی دے گا یہی سوچ کر بیٹھ گیا۔ پھر آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ یہی بات کہی پھر میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوقتادہ کیا بات ہے؟“ میں نے آپ سے سارا معاملہ بیان کیا، تو قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہے ہیں اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے، آپ ان کو اس بات پر راضی کر لیجئے (کہ وہ مال مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر صدیق ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کبھی بھی ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تمہیں مل جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ سچ کہہ رہے ہیں، تم اسے ابوقتادہ کو دے دو۔“ ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں: اس نے مجھے دے دیا، تو میں نے زرہ بیچ دی اور اس سے میں نے ایک باغ قبیلہ بنو سلمہ میں خریدا، اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: جنگ حنین میں مسلمان تعداد میں زیادہ تھے، لیکن تعلي اور کثرت تعداد کے زعم کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، میدان جنگ سے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور چند جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے، بھگدڑ سے یہی مراد ہے، بعد میں جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان فتح یاب ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Qatadah said “We went out with the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) in the year of Hunain. And when the armies met, the Muslims suffered a reverse. I saw one of the polytheists prevailing over a Muslim, so I went round him till I came to him from behind and struck him with my sword at the vein between his neck and shoulder. He came towards me and closed with me, so that I felt death was near, but he was overtaken by death and let me go. I then caught upon on "'Umar bin Al Khattab and said to him “What is the matter with the people”? He said “It is what Allah has commanded. Then the people returned and the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم)sat down and said “If anyone kills a man and can prove it, he will get his spoil. I stood up and said “Who will testify for me? I then sat down”. He said again “If anyone kills a man and can prove it, he will get his spoil. I stood up and said “Who will testify for me? I then sat down”. He then said the same for the third time. I then stood up. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “What is the matter with you, Abu Qatadah? I told him the story. A man from the people said “He has spoken the truth, and I have this spoil with me, so make him agreeable (to take something in exchange). Abu Bakr (RA) said “In that case I swear by Allah that he must not do so. One of the Allah’s heroes does not fight for Allah and his Apostle and then give you his spoil. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “He has spoken the truth, hand it over to him. Abu Qatadah said “he handed it over to me, I sold the coat of mail and brought a garden among Banu Salamh. This was the first property I acquired in the Islamic period.