تشریح:
ہر بالغ عورت کو ماہانہ نظام کے تحت جو خون آتا ہے اسے حیض کہتے ہیں۔ اور یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کا رحم خالی ہے۔ ابتدائے بلوغت ہی سے ہر عورت کو اپنی عادت کا بالعموم تجربہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خون سیاہی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اس نظام میں خرابی آجائے اور خون کا آنا عادت سے بڑھ جائے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور اس کی رنگت بھی مختلف سی ہوتی ہے۔ بچے کی ولادت پر آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔ حیض اور نفاس کے ایام ناپاکی کے ایام شمار ہوتے ہیں مگر استحاضہ کے ایام طہارت کے شمار کیے جاتے ہیں اس بنا پر کہ یہ ایک مرض کی کیفیت ہوتی ہے۔ استحاضہ کا مسئلہ یوں ہے کہ اگر عورت کو اپنے حیض کی تواریخ معلوم اور اس کے ایام متعین ہوں اور یہ عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ ان متعین دنوں کی نمازیں چھوڑ دے اور شوہر بھی اس سے علیحدہ رہے۔ اگر ایام اور تواریخ میں فرق آتا رہتا ہو تو سیاہی مائل خون کے ایام کو حیض کے ایام شمار کیا جائے لیکن اگر تواریخ اور ایام غیر متعین اور رنگت سے بھی امتیاز نہ ہو رہا ہو یا ابتدا ہی سے استحاضے کا عارضہ لاحق ہوگیا ہو تو چھ، سات دن یا اپنے عزیز واقارب کی خواتین کی عادات کے مطابق حیض کے دن متعین کرلیے جائیں۔ ان دنوں میں نماز، روزہ اور مجامعت سے پرہیز کیا جائے۔ ان دنوں کے پورے ہونے پر غسل کرکےنماز، روزہ شروع کردے اور بعد ازاں ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ اگر غسل کی ہمت ہو تو بہت افضل ہے۔ شوہر کو مباشرت کی بھی اجازت ہوگی۔ استحاضہ کی احادیث کا اس مختصر تمہید کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال النووي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن نافع عن سليمان بن يسار عن أم سلمة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وكذا قال النووي في المجموع (2/415) . وقد أعل بالانقطاع! ويأتي الجواب عنه. والحديث في الموطأً (1/80- 81) . ومن طريقه: رواه محمد في موطئه (ص 79) ، وكذا النسائي (1/65) ، والبيهقي (1/332) ، وأحمد (6/325) كلهم عن مالك... به. وكذا رواه عنه في الحلية (9/157) . وقد تابعه عبيد الله بن عمر قال: أخبرني نافع... به: أخرجه النسائي وابن ماجه (1/215) ، والدارقطني (ص 80) - عن أبى أسامة-، وأحمد (6/293) - عن ابن نمير- كلاهما عنه. وأخرجه أبو بكر بن أبي شيجة عنهما كليهما في المصنف ؛ كما في الجوهر النقي . وخالفهما أنس بن عياض عنه؛ فأدخل بين سليمان بن يسار وأم سلمة رجلاً. أخرجه المصنف بعد الرواية الاتية. قال ابن التركماني: وأبو أسامة أجل من أنس بن عياض؛ وقد تابعه عبد الله بن نمير؛ فروايتهما مرجحة بالحفظ والكثرة . وتابعه عن سليمان بن يسار: أيوبُ السَّخْتِياني: أخرجه الدارقطني (ص 76) ، والبيهقي (334) ، وأحمد (6/322) ؛ ولم يختلف عليه فيه؛ بخلاف رواية نافع. فقول البيهقي: إن سليمان بن يسارلم يسمعه من أم سلمة ! غير قوي؛ وإن كان احتج على ذلك برواية الليث وغيره عن نافع... مثل رواية أنس بن عياض عن عبيد الله. وقد ذكر المؤلف رواياتهم- فيما بعد- وقد اختلف فيه على الليث أيضا، كما سنبينه في الرواية الآتية. فترجيح ما اختُلِفَ فيه على مالم يُخْتَلَفْ فيه؛ مما لايخفى ضعفه؛ لاسيما وأن سليمان بن يسار ثقة جليل، أحد الفقهاء السبعة، ولم يعرف بتدليس، وقد أدرك أم سلمة حتماً؛ فحديثه عنها محمول على الاتصال. فإن كان لا بد من الترجيح؛ فرواية أيوب أصح من رواية نافع؛ وإلا فالروايتان ثابتتان، ويكون ابن يسار سمعه منها مباشرة