باب: چھوٹے دستے کی حاصل کردہ غنیمت بڑے لشکر میں بھی تقسیم ہو گی
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: The Spoils Acquired By A Detachment Should Be Divided Among The Whole Army)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2760.
ایاس بن سلمہ اپنے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عیینہ (فزاری) نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹ لوٹ لیے، ان کے چراوہے کو قتل کر ڈالا اور پھر وہ اور اس کے گھوڑ سوار ساتھی انہیں ہانکتے ہوئے چل نکلے۔ (مجھے خبر ہوئی) تو میں نے اپنا منہ مدینہ کی طرف کیا اور تین بار یہ ہانک لگائی «يا صباحاه» (لوگو! مدد کو پہنچو، ہم کو دشمن نے لوٹ لیا ہے) پھر میں (دوڑتے ہوئے) ان لوگوں کے پیچھے ہو لیا، تیر مارتا جاتا تھا اور ان کی سواریوں کو زخمی کرتا جا رہا تھا، اگر ان میں سے کوئی گھوڑ سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتا حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی تمام سواریاں جو اللہ نے پیدا فرمائی تھیں میں نے ان کو اپنے پیچھے (اپنے قبضے میں) کر لیا۔ اور ان لوگوں نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے تیس سے زیادہ بھالے اور تیس چادریں پھینک دیں۔ پھر عیینہ بھی ان کی مدد کو آن پہنچا تو اس نے کہا: تم میں سے کچھ آدمی اس (سلمہ بن اکوع) کی طرف ہو جاؤ۔ تو ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ میں نے بلند آواز سے انہیں کہا: کیا تم مجھے پہنچانتے ہو؟ انہوں نے پوچھا، تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں اکوع کا فرزند ہوں، اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کے چہرے کو عزت بخشی ہے! یہ نہیں ہو سکتا کہ تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو میں اس کے ہاتھ آ جاؤں اور اگر میں پکڑنا چاہوں تو وہ بھاگ نکلے۔ پھر تھوڑی دیر گزری تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے شہسوار درختوں میں سے (دوڑے) آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی ؓ تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ کے مقابلے میں ہو گئے، عبدالرحمٰن ان پر پلٹا اور پھر دونوں میں ایک دوسرے پر نیزے چلائے۔ چنانچہ اخرم اسدی ؓ نے اس (عبدالرحمٰن) کا گھوڑا زخمی کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اخرم ؓ کو نیزہ مارا اور ان کو شہید کر دیا۔ پھر عبدالرحمٰن، اخرم ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا تو ابوقتادہ ؓ، عبدالرحمٰن کے مقابلے میں آ گئے۔ ان کے مابین بھی نیزے کے حملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس نے ابوقتادہ ؓ کا گھوڑا زخمی کر دیا لیکن ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو قتل کر ڈالا۔ پھر ابوقتادہ ؓ، اخرم ؓ والے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ ﷺ اس چشمے پر تشریف لے آئے تھے جہاں سے میں نے ان کو بھگایا تھا۔ اس کا نام ذوقرد تھا۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پانچ سو سوار لیے ہوئے تھے۔ پس آپ ﷺ نے مجھے ایک شہسوار اور ایک پیدل کا حصہ عنایت فرمایا۔
تشریح:
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی تیز رفتار بہادر جوان تھے۔ انہیں ان کی اسی جراءت وبہادری کا اضافی انعام دیا گیا اور باقی دوسرے مجاہدین میں تقسیم ہوا۔
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
ایاس بن سلمہ اپنے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عیینہ (فزاری) نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹ لوٹ لیے، ان کے چراوہے کو قتل کر ڈالا اور پھر وہ اور اس کے گھوڑ سوار ساتھی انہیں ہانکتے ہوئے چل نکلے۔ (مجھے خبر ہوئی) تو میں نے اپنا منہ مدینہ کی طرف کیا اور تین بار یہ ہانک لگائی «يا صباحاه» (لوگو! مدد کو پہنچو، ہم کو دشمن نے لوٹ لیا ہے) پھر میں (دوڑتے ہوئے) ان لوگوں کے پیچھے ہو لیا، تیر مارتا جاتا تھا اور ان کی سواریوں کو زخمی کرتا جا رہا تھا، اگر ان میں سے کوئی گھوڑ سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتا حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی تمام سواریاں جو اللہ نے پیدا فرمائی تھیں میں نے ان کو اپنے پیچھے (اپنے قبضے میں) کر لیا۔ اور ان لوگوں نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے تیس سے زیادہ بھالے اور تیس چادریں پھینک دیں۔ پھر عیینہ بھی ان کی مدد کو آن پہنچا تو اس نے کہا: تم میں سے کچھ آدمی اس (سلمہ بن اکوع) کی طرف ہو جاؤ۔ تو ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ میں نے بلند آواز سے انہیں کہا: کیا تم مجھے پہنچانتے ہو؟ انہوں نے پوچھا، تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں اکوع کا فرزند ہوں، اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کے چہرے کو عزت بخشی ہے! یہ نہیں ہو سکتا کہ تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو میں اس کے ہاتھ آ جاؤں اور اگر میں پکڑنا چاہوں تو وہ بھاگ نکلے۔ پھر تھوڑی دیر گزری تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے شہسوار درختوں میں سے (دوڑے) آ رہے ہیں۔ ان میں سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی ؓ تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ کے مقابلے میں ہو گئے، عبدالرحمٰن ان پر پلٹا اور پھر دونوں میں ایک دوسرے پر نیزے چلائے۔ چنانچہ اخرم اسدی ؓ نے اس (عبدالرحمٰن) کا گھوڑا زخمی کر دیا اور عبدالرحمٰن نے اخرم ؓ کو نیزہ مارا اور ان کو شہید کر دیا۔ پھر عبدالرحمٰن، اخرم ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا تو ابوقتادہ ؓ، عبدالرحمٰن کے مقابلے میں آ گئے۔ ان کے مابین بھی نیزے کے حملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس نے ابوقتادہ ؓ کا گھوڑا زخمی کر دیا لیکن ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو قتل کر ڈالا۔ پھر ابوقتادہ ؓ، اخرم ؓ والے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ ﷺ اس چشمے پر تشریف لے آئے تھے جہاں سے میں نے ان کو بھگایا تھا۔ اس کا نام ذوقرد تھا۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ پانچ سو سوار لیے ہوئے تھے۔ پس آپ ﷺ نے مجھے ایک شہسوار اور ایک پیدل کا حصہ عنایت فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی تیز رفتار بہادر جوان تھے۔ انہیں ان کی اسی جراءت وبہادری کا اضافی انعام دیا گیا اور باقی دوسرے مجاہدین میں تقسیم ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سلمہ بن الاکوع ؓ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عیینہ نے رسول اللہ ﷺ کے اونٹوں کو لوٹ لیا، آپ کے چرواہے کو مار ڈالا، اور اونٹوں کو ہانکتا ہوا وہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگ جو گھوڑوں پر سوار تھے چلے، تو میں نے اپنا رخ مدینہ کی طرف کیا، اور تین بار پکار کر کہا «يا صباحاه» (اے صبح کا حملہ)۱؎، اس کے بعد میں لٹیروں کے پیچھے چلا، ان کو تیر مارتا اور زخمی کرتا جاتا تھا، جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف پلٹتا تو میں کسی درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سارے اونٹوں کو میں نے اپنے پیچھے کر دیا، انہوں نے اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے تیس سے زائد نیزے اور تیس سے زیادہ چادریں نیچے پھینک دیں، اتنے میں عیینہ ان کی مدد کے لیے آ پہنچا، اور اس نے کہا: تم میں سے چند آدمی اس شخص کی طرف (یعنی سلمہ بن الاکوع ؓ) کی طرف جائیں (اور اسے قتل کر دیں) چنانچہ ان میں سے چار آدمی میری طرف آئے اور پہاڑ پر چڑھ گئے، جب اتنے فاصلہ پر ہوئے کہ میں ان کو اپنی آواز پہنچا سکوں تو میں نے کہا: تم مجھے پہچانتے ہو، انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں اکوع کا بیٹا ہوں، قسم اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو بزرگی عنایت کی، تم میں سے کوئی شخص مجھے پکڑنا چاہے تو کبھی نہ پکڑ سکے گا، اور میں جس کو چاہوں گا وہ بچ کر جا نہ سکے گا، پھر تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے بیچ سے چلے آ رہے ہیں، ان میں سب سے آگے اخرم اسدی ؓ تھے، وہ عبدالرحمٰن بن عیینہ فزاری سے جا ملے، عبدالرحمٰن نے ان کو دیکھا تو دونوں میں بھالا چلنے لگا، اخرم ؓ نے عبدالرحمٰن کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور عبدالرحمٰن نے اخرم ؓ کو مار ڈالا، پھر عبدالرحمٰن اخرم ؓ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا، اس کے بعد ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو جا لیا، دونوں میں بھالا چلنے لگا، تو اس نے ابوقتادہ ؓ کے گھوڑے کو مار ڈالا، اور ابوقتادہ ؓ نے عبدالرحمٰن کو مار ڈالا، پھر ابوقتادہ اخرم کے گھوڑے پر سوار ہو گئے، اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گیا، آپ ذو قرد نامی چشمے پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا تو دیکھتا ہوں کہ آپ پانچ سو آدمیوں کے ساتھ موجود ہیں، آپ نے مجھے سوار اور پیدل دونوں کا حصہ دیا۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ’’يا صباحاه‘‘: یہ وہ کلمہ ہے جسے عام طور سے فریادی کہا کرتے تھے۔
۲؎: تو تین حصے دیئے یا چار، انہوں نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ جو بہت سے آدمیوں سے نہ ہوتا، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’سواروں میں آج سب سے بہتر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہیں، اور پیادوں میں سب سے بہتر سلمہ بن الاکوع ہیں۔‘‘ پھر سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے عضباء نامی اونٹی پر بیٹھا لیا، اور مدینے تک اسی طرح آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کو ایک سوار کا حصہ دیا، اور ایک پیدل کا، اس میں دو احتمال ہے: ایک یہ کہ چار حصے دیئے، دوسرے یہ کہ تین حصے دئیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سوار کے حصہ میں اختلاف ہے، جن لوگوں کے نزدیک سوار کے تین حصے ہیں، ایک حصہ خود اس کا، دو حصہ اس کے گھوڑے کا، اور جن کے نزدیک سوار کے دو حصے ہیں، ایک حصہ اس کا، اور ایک حصہ اس کے گھوڑے کا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Salamah (bin Al ‘Akwa) said “Abd Al Rahman bin ‘Uyainah raided the Camels of the Apostle of Allah (ﷺ) and killed their herdsman. He and some people who were with him on horses proceeded on driving them away. I turned my face towards Madeenah and shouted three times. A morning raid, I then went after the people shooting arrows at them and hamstringing them (their beasts). When a horseman returned to me, I sat in the foot of a tree till there was no riding beast of the Prophet (ﷺ) created by Allaah which I had not kept behind my back. They threw away more than thirty lance and thirty cloaks to lighten themselves. Then ‘Uyainah came to them with reinforcement and said “A few of you should go to him. Four of them stood and came to me. They ascended a mountain. Then they came near me till they could hear my voice. I told them “Do you know me”? They said “Who are you? I replied “I am Ibn Al ‘Akwa. By Him Who honored the face of Muhammad (ﷺ) if any man of you pursues he cannot catch me and if I pursue him, I will not miss him. This went on with me till I saw the horsemen of the Apostle of Allah (ﷺ) coming through the trees. Al Akhram Al As'adi was at their head. He then joined ‘Abd Al Rahman bin ‘Uyainah and ‘Abd Al Rahman turned over him. They attacked each other with lances. Al Akhram hamstrung ‘Abd Al Rahman’s horse and ‘Abd Al Rahman pierced a lance in his body and killed him. ‘Abd al Rahman then returned on the horse of Al Akhram. I then came to the Apostle of Allah (ﷺ) who was present at the same water from where I drove them away and which is known as Dhu Qarad. The Prophet (ﷺ) was among five hundred people. He then gave me two portions a horseman’s and a footman’s.