باب: جہاد سے واپس آ جانے کی رخصت جبکہ یہ عمل پہلے ممنوع تھا
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding The Permission For Returning From The Battle After It Had Been Prohibited)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2779.
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سورۃ التوبہ کی آیت کریمہ: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} کو سورۃ نور کی آیت کریمہ: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} نے منسوخ کر دیا ہے۔
تشریح:
ابتدائے اسلام میں منافق لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں نہیں نکلا کرتے تھے۔ اگر جاتے بھی تو مختلف حیلوں بہانوں سے واپس آجاتے تھے۔ سورہ توبہ میں ان کے متعلق بیان ہواہے۔ ﴿لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ ﴿٤٤﴾ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾ (التوبة:44۔45) جولوگ اللہ اور آخرت کےدن پر ایمان لائے ہیں۔ وہ آپ ﷺ سے کوئی اجازت نہیں مانگتے۔ کہ انہیں اپنے مالوں یا جانوں کے ساتھ جہاد نہ کرنا پڑے۔ اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے۔ آپ سے وہی لوگ اجازتیں مانگتے ہیں۔ جن کا اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے انہی شکوک میں بھٹک رہے ہیں۔ ان آیات کے نازل ہونے پر جہاد سے لوٹ آنا ممنوع ہوگیا تھا۔ خواہ نبی کریمﷺ کی اجازت سے ہی ہوتا۔ مگر جب اسلام اور مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگئی۔ اور مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ تو اجازت لے کر واپس آجانے کی رخصت ہوگئی۔ اور سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(النور :62) ایمان والے وہی لوگ ہیں۔ جو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺپر یقین رکھتے ہیں۔ اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں ہوتےہیں۔ تو اس وقت تک روانہ نہیں ہوتے۔ جب تک کہ آپ سے اجازت نہ لے لیں۔ بلاشبہ جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ سو جب یہ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں۔ تو آپ جسے چاہیں اجازت دے دیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے معافی مانگیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ سورۃ التوبہ کی آیت کریمہ: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} کو سورۃ نور کی آیت کریمہ: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} نے منسوخ کر دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابتدائے اسلام میں منافق لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں نہیں نکلا کرتے تھے۔ اگر جاتے بھی تو مختلف حیلوں بہانوں سے واپس آجاتے تھے۔ سورہ توبہ میں ان کے متعلق بیان ہواہے۔ ﴿لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ ﴿٤٤﴾ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾ (التوبة:44۔45) جولوگ اللہ اور آخرت کےدن پر ایمان لائے ہیں۔ وہ آپ ﷺ سے کوئی اجازت نہیں مانگتے۔ کہ انہیں اپنے مالوں یا جانوں کے ساتھ جہاد نہ کرنا پڑے۔ اور اللہ متقین کو خوب جانتا ہے۔ آپ سے وہی لوگ اجازتیں مانگتے ہیں۔ جن کا اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے انہی شکوک میں بھٹک رہے ہیں۔ ان آیات کے نازل ہونے پر جہاد سے لوٹ آنا ممنوع ہوگیا تھا۔ خواہ نبی کریمﷺ کی اجازت سے ہی ہوتا۔ مگر جب اسلام اور مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگئی۔ اور مسلمانوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ تو اجازت لے کر واپس آجانے کی رخصت ہوگئی۔ اور سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ)(النور :62) ایمان والے وہی لوگ ہیں۔ جو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺپر یقین رکھتے ہیں۔ اور جب وہ کسی اجتماعی کام میں ہوتےہیں۔ تو اس وقت تک روانہ نہیں ہوتے۔ جب تک کہ آپ سے اجازت نہ لے لیں۔ بلاشبہ جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ سو جب یہ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں۔ تو آپ جسے چاہیں اجازت دے دیں۔ اور ان کے لئے اللہ سے معافی مانگیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آیت کریمہ: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} ”اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے۔ ۔ ۔“ (سورۃ التوبہ: ۴۴) کو سورۃ النور کی آیت: {لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} سے «غفور رحيم» تک ”باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ (سورة النور: ۶۲) نے منسوخ کر دیا ہے۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: باب اور اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی صورت میں جہاد سے چھٹی لے کر گھر آ جانے کی اجازت نہیں تھی، پھر بعد میں اجازت لے کر آنے کی رخصت مل گئی۔ ابتدائے اسلام میں منافقوں کی عام روش یہ تھی کہ وہ جہاد کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے نہیں تھے، اوراگر نکلتے بھی تو طرح طرح کے بہانے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر راستہ ہی سے واپس آ جاتے تھے، تو اللہ تعالی نے آیت کریمہ نازل فرمائی: ﴿إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾(سورة التوبة: ۴۵)، جب یہ آیت اتری تو جہاد سے راستہ سے واپس آنے کو ممنوع قرار دے دیا گیا، گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ پھر جب اسلام طاقتور ہو گیا گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مجاہدین کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالی نے سورہ نور کی آیت: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ﴾ سے «غفور رحيم» تک نازل فرمائی، تو پہلی آیت منسوخ ہو گئی اور بوقت ضرورت اجازت لے کر جہاد سے واپس آجانے کو جائز قرار دے دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Abbas (RA) said “The verse “Those who believe in Allah and the Last Day ask thee for no exemption from fighting with their goods and persons” was abrogated by the verse “Only those are believers who believe in Allaah and His Apostle....For Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful”.