تشریح:
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کے برابر اور ہم پلہ بنوآدم میں سے کوئی نہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلیل القدر چھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین مقرر فرما دیئے۔ کہ انھیں میں سے کسی کو خلفیہ بنا دیا جائے۔ اور وہ تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد ازاں مذید وضاحت بھی فرمائی۔ کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کا نام تجویز کیوں نہیں کیا؟ جب لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ اپنے جانشین کا نام تجویز کریں۔ تو آپ ﷺنے جواب دیا۔ میں اس کام کےلئے ان لوگوں سے زیادہ مستحق کسی کونہیں سمجھتا۔ کہ رسول اللہ ﷺ جب رخصت ہوئے تو ان سے راضی تھے۔ پھر امارت کا فیصلہ کرنے کےلئے ان حضرات کے نام گنوائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اور یہ بھی کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن وہ امارت کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے۔ (صحیح البخاري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البعیة، حدیث:3700) اس موقع پر ایک شخص نے کہا آپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس بات پر تیرا مقصود اللہ کی رضا نہیں، ایک اور صحیح روایت کے مطابق آپ نے اس کو جواب دیا اللہ تجھے ہلاک کرے تو نے اللہ کی رضا کےلئے ایسا نہیں کہا۔ کیا میں ایسے آدمی کو خلیفہ بنا دوں جو صحیح طریق سے بیوی کو طلاق بھی نہیں دے سکتا؟ آپ کو اندازہ تھا کہ شوریٰ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نامزد کرے گی۔ اس لئے آپ نے دونوں کو بلاکر وصیت کی پھر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاکر کہا۔ آپ تین دن تک لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اور یہ لوگ اپنے گھر میں اپنا اجتماع کریں۔ جب سب ایک شخص پر اتفاق کرلیں۔ تو جو کوئی مخالفت کرے اسے قتل کر دیں۔ یہ بات سن کر یہ حضرات باہر آئے۔ تو آپ نے فرمایا۔ اگر یہ لوگ اجلح (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو ولی الامر بنا دیں تو وہ انہیں لے کر جادہ مستقیم پر گامزن رہیں گے۔ بیٹے نے کہا۔ آپ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو نامزد کیوں نہیں کردیتے (کیونکہ جس طرح اوپر بیان ہوا کہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تفویض کرنے کی پیش کش کرچکے تھے) فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں زندگی میں بھی یہ بوجھ اٹھائوں اور مرنے کے بعد بھی (فتح الباري، کتاب فضائل الصحابة، باب قصة البیعة: 87/7) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ کہ ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ یہ لوگ (جن پر مشتمل کمیشن آپ نے بنایا تھا۔) آپکی طرف آئے تو آپ نے متوجہ ہوکر ان کی طرف فرمایا میں نے لوگوں کے معاملے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے تو تم لوگوں میں ہی ہوگا۔ یہ معاملہ اب تمہارے سپرد ہے۔ (حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مویشیوں کے پاس (مدینہ) سے باہر تھے۔ اس کے بعد فرمایا جب تمہاری قوم تین اشخاص حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کو امیر نہیں بنائے گی۔ تو جو تم میں سے امیر بنے وہ اپنے اقرباء کو لوگوں کی گردنوں پر سوار نہ کرے۔ اٹھو اور مشورہ کرو۔ پھر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ ابھی توقف کرو۔ اگرمیرا وقت آجائے تو تین دن تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کروایئں۔ اور تم میں سے جو کوئی بھی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امارت پر مسلط ہو اس کی گردن اڑادو۔ (فتح الباری حوالہ سابقہ) اس تمام واقع سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔
1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کیا۔ اور اپنی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تجویز دینے یا لوگوں کی طرف سے تلقین کردہ جانشین کے تعین کاحق استعمال کرنے کی بجائے مکمل طور پر آذاد شوریٰ کے ذریعے سے امیر کاتعین کاراستہ دیکھایا۔
2۔ آپ نے شوریٰ کےلئے جو کمیشن تجویز کیا۔ وہ ان لوگوں پر مشتمل تھا۔ جن کا کردار ایسا تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان سے راضی تھے۔
3۔ یہ لوگ ایسے تھے کہ ان لوگوں کے متفقہ فیصلے پر پوری امت کا اتفاق تھا۔ اور ان کے اختلاف سے امت میں تفرقہ پڑ سکتا تھا۔ یعنی یہی پوری امت کے معتمد ترین نمایئندے تھے۔
4۔ آپ نے اپنے بیٹے کو خلافت دیئے جانے کے امکان کو بھی ختم کردیا۔
5۔ آپ کوجس نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بیتے کو جانشین بنادیں۔ آپ ان پر سخت ناراض ہوئے۔ اسے اللہ کے غضب سے ہلاک ہونے کی بدعا دی۔ اور اس بات کو اللہ کی ناراضگی کا سبب گردانا۔
6۔ آپ کو لوگوں کے انتخاب کا صحیح اندازہ تھا۔ اس لئے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعد ازاں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امارت پر فائز ہوجانے کے بعد معاملات چلانے کے معاملے میں ضروری نصیحت فرمائی۔ اور وہ یہ تھی کہ جس طرح میں نے اپنے بیٹے کو خلافت سے دور رکھا ہے۔ اسی طرح امور خلافت چلانے میں بھی اقرباء کو شامل نہ کیا جائے۔
7۔ آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ امت میں اختلاف کا ایک اہم سبب قیادت کے درمیان اختلاف ہوتا ہے۔ گویا آپ نے ان زعماء کو بھی اتفاق واختلاف کا ذمہ دار قرار دیا۔
8۔ آپ نے وسیع تر دائرے تک مشاورت کی غرض سے اس کمیشن کو کافی وقت دیا۔ اور یہ کہا کہ جائو اور فورا مشاورت کرو۔ اس کمیشن کو واضح طور پر امیر کے تعین کا طریق کار یاد کرا دیا۔
9۔ یہ بھی واضح ہدایت دی کہ معتمد نمایندے فیصلہ کرلیں۔ تو انتشار پھیلانے والا باغی متصور ہوگا۔ اور اس کی سزا موت ہوگی۔
10۔ یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں کی مشاورت کے بغیر حکومت پر قبضہ کرنے والا بھی باغی ہوتا ہے۔ اور اس کی سزا بھی موت ہے۔