تشریح:
1۔ مملکت اسلامیہ اپنی غیر مسلم رعایا سے ایک ٹیکس لیتی ہے۔ جو ان کی وہاں سہولت ورہائش اور ان کی جانوں مالوں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کے بدلے میں لے لیا جاتا ہے۔ اور وہ سرحدوں کی حفاظت اور (دفاع) قتال جیسی ذمہ داریوں کے مکلف نہیں ہوتے۔ اسی ٹیکس کو جزیہ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ (قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ) (التوبة:29) قتال کرو ان سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ اور نہ قیامت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حرام کردہ چیزوں کوحرام گردانتے ہیں۔ اور نہ سچے دین کے تابع ہوتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی۔ (ان سے قتال کرتے رہو) حتیٰ کہ اپنے ہاتھوں سے ذلیل ہوتےہوئے جزیہ ادا کریں۔ مسلمان سوسائٹی کی بہبود کےلئےذکواۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک اعزاز ہے۔ غیر مسلم رعایا سے زکواۃ وصول نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس سے کم مقدار میں جزیہ وصول کیا جاتا ہے۔
2۔ اکیدر دومہ غسانی عرب تھا۔ اور یہ دلیل ہے کہ غیرمسلم عرب سے بھی جزیہ لینا ضروری ہے۔ جیسے کہ عجمیوں سے لیا جاتا ہے۔