تشریح:
فائدہ: یہ روایت فقہاء کے نزدیک بہت زیادہ مشہور ہے۔ مگرحققیت یہ ہے کہ سند کے لہاظ سے بالکل ضعیف ہے۔ آئمہ جرح تعدیل میں کوئی بھی اس کی تصیح نہیں کرتا اس کے ضعف کے تین سبب گنوائے گئے ہیں۔
1۔ مرسل ہے۔
2۔اصحاب معاذ مجہول ہیں۔
3۔ حارث بن عمرو مجہول ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں۔ لايصح ولا يعرف الا مرسلا یہ صحیح نہیں اور جتنے طرق معروف ہیں سبھی مرسل ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں۔ هذا حديث لا نعرفه إلا من هذا الوجه وليس إسناده عندي بمتصل یہ حدیث بس اس سند سے مروی ہے۔ جو میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ امام دارقطنی کہتے ہیں۔ (والمرسل أصح) اس کا مرسل ہونا ہی صحیح تر ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں۔ (لا يصح لأن الحارث مجهول و شيوخه لايعرفون) یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ حارث مجہو ل ہے۔ اس کے شیوخ کی بھی خبر نہیں کہ کون ہے۔ ابن طاہر کہتے ہیں۔ لا يصح ابن جوزی نے کہا۔ لا يصح۔ ذہبی کہتے ہیں۔ و أنی له الصحة؟ ومداره علی الحارث بن عمر وهو مجهول عن رجال من أهل حمص لايدری من هم یہ حدیث کیونکہ صحیح ہوسکتی ہے؟ اس کا مدار حارث بن عمرو پر ہے۔ اور وہ خود مجہول ہے۔ اہل حمص سے روایت کرتا ہے۔ جن کی خبر نہیں کہ وہ کون ہیں علاوہ ازیں عقیلی سبکی اور ابن حجر ؒ بھی یہی کہتے ہیں۔ علامہ البانی ؒفرماتے ہیں۔ معنوی اعتبار سے بھی اس میں زبردست خلل ہے۔ اس میں حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔ اگر اس میں نہ ملا تو پھر سنت رسول اللہ سے اگر اس میں بھی ملا تو پھر رائے استعمال کروں گا حالانکہ یہ ترتیب اورقرآن وسنت کی تفریق کسی طرح صحیح نہیں۔ بلکہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔ کیونکہ سنت قرآن کریم کے مجمل کا بیان کرتی ہے۔ مطلق کی تقید اور عموم کی تخصیص کرتی ہے۔ الغرض یہ ترتیب صحیح نہیں۔ بلکہ ہر مسئلہ بیک وقت قرآن وسسنت میں تلاش کیا جائے۔ پھر خیروالقرون صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تابعین وتبع تابعین کے فتاویٰ و معمولات کو دیکھا جائے۔ اگر نہ ملے تو صاحب علم کو استبناط واستدلال اوراجتہاد کا حق حاصل ہے۔ (ماخوذ از سلسلة الأحادیث الضعیفة علامہ البانی الجزء ثانی، حدیث: 881)