تشریح:
فائدہ: اگر کس مسلمان کو ایسی جگہ موت کا سامنا ہو جہاں اس کی وصیت کےلئے مسلمان گواہ موجود ہوں۔ تو قرآن مجید میں یہ طریقہ بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اے لوگو! جوایمان لائے ہو۔ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے۔ تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیے۔ اور وصیت کےوقت اپنے (مسلمانوں) میں سے دو انصاف والے گواہ بنالو۔ یا تم اگر زمین پر سفر میں نکلے ہو اور (راستے میں) موت کی مصیبت پیش آجائے۔ تو غیر قوم کے دو گواہ بھی کافی ہوں گے۔ پھر اگر تمھیں کوئی شبہ ہو تو ان دونوں گواہوں کو نماز کے بعد (مسجد میں) روک لو تو وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کی کوئی قیمت نہیں لے رہے۔ اور کوئی ہمارا رشتہ دار بھی ہو۔ (تو ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور ہم اللہ کی گواہی نہیں چھپاتے اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم گناہگاروں میں شمار ہوں گے۔ پھر اگر پتہ چل جائے کہ بےشک ان دونوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو ان دونوں کی جگہ دو اور گواہ ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کا حق مارا گیا ہو۔ اور جو مرنے والے کے زیادہ قریبی ہوں۔ پھر وہ دونوں اللہ کی قسمیں کھایئں کہ ہماری گواہی ان (پہلے) دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی اگر ہم ایسا کریں تو ظالموں میں شمار ہوں گے۔ اس طرح زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے۔ یا کم از کم اس بات کا ہی خوف کریں گے۔ کہ کہیں ان (ورثاء) کی قسموں کے بعد ان کی قسمیں رد نہ کردی جایئں۔ اور تم اللہ سے ڈرو اور سنو۔ اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کوہدایت نہیں دیتا۔ (المائدة۔106 تا 108)اس باب کی دونوں حدیثوں سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مسلم گواہوں کی عدم موجودگی میں غیر مسلم گواہ بنائے جاسکتے ہیں۔ ان کی گواہی سے شک وشبہ ختم کرنے کےلئے گواہی کے ساتھ قسم بھی لینی چاہیے پہلی حدیث کی سند میں اگرچہ کلام ہے۔ لیکن آئندہ حدیث صحیح بخاری کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ فرمایا وہ عین وحی الٰہی کے مطابق تھا۔