تشریح:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم وکیل بننا بنانا جائز ہے۔ اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ذاتی کام اپنے وکیل کے ذریعے سے کروا لیا کرتے تھے۔ جیسے کہ بکری خریدنے کا واقعہ ہے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3642) علاوہ ازیں عمال حکومت سبھی رسول اللہ ﷺ کے نائب اوروکیل ہی ہوا کرتے تھے۔ آج کل کے عدالتی نظام میں وکالت ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر اپنا حق وصول کرنا ناممکن ہے۔ اس بنا پر صاحب حق کےلئے تو اپنے حق کی وصولی کےلئے وکیل بنانا اور کسی شخص کا اس کےلئے وکیل بننا جائز ہے۔ لیکن کسی دوسرے کا حق غصب کرکے عدالت سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانے کے لئے کسی کو وکیل بنایا اور اس ظالم وغاصب کی وکالت کے لئے کسی کا وکیل بننا قطعا جائز نہیں ہے۔ایسی وکالت کا سارا معاوضہ یکسر حرام اور ناجائز ہے۔