تشریح:
فائدہ: جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں۔ جو نجاست کھائے۔ امام ابن حزم نجاست خور مرغی کو اس میں شامل نہیں کرتے۔ لیکن اکثریت کے مطابق مرغی سمیت تمام پرندے بھی اگر نجاست خور ہوں تو جلالہ ہی میں آیئں گے۔ ابو اسحاق المروزی۔ امام الحرمین۔ بغوی اور غزالی نے نجاست خور مرغی کے انڈے کو نجاست خور بکری گائے وغیرہ کے دودھ پر قیاس کیا ہے۔ بلکہ ہر اس جانور کو جلالہ کے حکم میں شامل کیا ہے۔ جس کی پرورش نجس خورا ک پر ہو۔ مثلا ایسا بکری کا بچہ جس کی پرورش کتیا کے دودھ پر کی گئی ہو۔ دیکھئے۔ (فتح الباري،کتاب لذبائح والصید، باب لحم الدجاج) آج کل مرغیوں کی خوراک میں حیوانی پروٹین کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ خون وغیرہ تو پاکستان جیسے مسلم ممالک میں بھی فیڈ میں ڈالا جاتا ہے۔ غیر مسلم ممالک میں حرام جانوروں کے گوشت اجزاء بھی فیڈ میں استعمال ہوتے ہیں۔ کیا اس قسم کی مرغی جلالہ کہلائے گی؟ ہاں اگر اس کی غذا کا زیادہ تر حصہ حرام اور نجس اجزاء پر مشتمل ہو یا اس سے گوشت انڈے وغیرہ میں بد بو پیدا ہوجائے۔ تو یقیناً حرام ہوگی۔ کسی جانور کے حلالہ نہ ہونے کی وجہ سے یہی دو باتیں اہم ہیں۔ بعض فقہاء نے کہا ہے کہ اگراس کی غذا کا زیادہ حصہ نجس ہے تو جلالہ ہے۔ تاہم امام لیث کے نذدیک جانور اگر صرف نجاست کھاتا ہے۔ تو جلالہ ہے۔ رافعی وغیرہ کا خیال ہے کہ غذا کی مقدار اہم نہیں۔ اصل اہمیت گوشت دودھ وغیرہ میں بو پیدا نہ ہونے کی ہے۔ اگر یہ اشیاء بو سے پاک ہیں تو استعمال کرلی جایئں اور گر بدبودار ہیں تو ممنوع ہیں۔ وٹرنری اور ڈاکٹروں اور فیڈ سازوں کے مطابق مغربی ممالک کی مرغیوں کی فیڈ میں کسی حد تک ملی جلی حیوانی پروٹین شامل ہوتی ہیں۔عمومی تجربہ یہ ہے کہ ان کے گوشت میں کوئی ناگواربو پائی نہیں جاتی۔ اس لئے یہ مرغیاں جلالہ کے حکم میں شامل نہ سمجھی جایئں گی۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے استعمال کے لئے خود فارم بنایئں کفار سے ایسی اشیاء کی درآمد پر انحصارختم کریں۔ اس بات پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر ایسے جانور کو باندھ کر اسے صرف چارہ وغیرہ کھلایا جاتا رہے۔ تو کچھ عرصے کے بعد اس کا گوشت دودھ وغیرہ نجاست کے اثرات سے پاک ہوجاتا ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند سے حضرت ابن عمر کاعمل نقل کیا ہے کہ وہ جلالہ مرغی کو تین روز تک بند رکھا کرتے تھے۔ بڑے جانوروں گائے اونٹ وغیرہ کے بارے میں عطا اور دیگر فقہاء چالیس دن بند رکھ کر چارہ دکھلانے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع حدیث کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جس میں جلالہ کی حرمت اور حلت کےلئے جانور کو چالیس روز تک محبوس رکھنے کا حکم ہے۔ لیکن یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ البتہ صحیح احادیث میں شراب پینے والے انسان کی چالیس روز تک نماز قبول نہ ہونے کی صراحت موجود ہے۔ (سنن النسائي، الأشربة۔ باب الذکر الآثام المتولدة من شرب الخمر۔۔۔ حدیث 5672۔ 5671 وجامع الترمذیي، الأشربة، باب ما جاء في شارب الخمر، حدیث: 1862) جس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ کہ نجس چیز کے استعمال کے اثرات چالیس روز کے بعد اجسام سے زائل ہوجاتے ہیں۔ بعض فقہاء مثلا مام نووی کہتے ہیں کہ اصل وجہ منع چونکہ بدبو ہے۔ اس لئے جب یہ زائل ہوجائے تو جانور کا گوشت اور دودھ وغیرہ شرعا قابل استعمال ہوگا۔ دیکھئے۔ (عون المبعود، الأطعمة۔باب النھي عن أکل الحلالة، ألبانھا) یہ حکم غالبا نجاست زدہ کنویں کے پانی کو صاف کرنے کے حکم سے مشابہ ہے کہ نجاست زائل کرنے کے بعد اس وقت تک پانی نکالا جاتا رہے، حتی کہ وہ بورنگ اور ذائقے میں بالکل صاف ہوجائے۔ نجاست خوراونٹنی وغیرہ پر سواری کرنا بھی اس وقت جائز ہوگا۔ جب اس کے جسم (پسینے وغیرہ) سے نجاست کی بدبو بالکل زائل ہوجائے گی۔ طہارت اور پاکیزگی کا یہ اعلیٰ معیار صرف اس دین کا بتایا ہوا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان فرمائی (وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ) (الأعراف:157) پاکیزہ اشیاء کو حلال ٹھراتے ہیں۔ اور تمام گندگیوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔