انسانی تاریخ میں غلام بنانے اور رکھنے کا تصور بہت قدیم ہے۔ یہ وہ معاشرتی رواج ہےجو جاہلیت پر مبنی ہے جسکے باعث ایک آزاد شخص دوسرے شخص کی غلامانہ ملکیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایرانی، رومی، بابلی اور یو نانی تہذیبیں انسانی تاریخ کی قدیم تریں تہذیبیں ہیں۔ یہ لوگ غلام رکھنےاور غلام بنانے کے قائل و فاعل رہے ہیں حتٰی کہ بعض مذاہب میں بھی اس قبیح رسم پر عمل در آمد ہو تا رہا ہے۔ اس دور میں کئی طریقوں سے آزاد انسانوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا، مثلاََ منڈیوں میں خرید و فروخت کے ذریعے سے، والدین کا خود بچوں کا فروخت کر دینا،ظالمانہ طریق پر ان کا اغوا، مقروض کو غلام بنانے کی رسم ، معاشی اغراض کے لیئےبلا معاوضہ مزدوروں کا حصول،ہوس پرستی اور عیش پرستی کے لیئے آزاد عورتوں کو باندیاں بنانا، نیز جنگ کی صورت میں مغلوب اور مفتوح فوج او ر قوم کے افراد کو قبضے میں لے کر غلام بنانا یا پھر محض لوٹ مار کے ذریعےسے دوسری اقوام اور قبائل کے لوگوں کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ لینا۔۔۔۔۔یہ سب ظالمانہ اقدامات غلام سازی کے لیئے مدتوں استعمال ہوتے رہے۔ اور پھر ان غلاموں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھاجاتا تھا وہ ننگِ انسانیت رہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف تہذیبوں اور سلطنتوں میں ان غلاموں سے جو سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے اس کا بیان اور مطالعہ بہت روح فرسا ہے۔ کم اور مضرِ صحت غذا کھلانا،پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا،جسم کو آگ سے داغنا،غیر مناسب محنت و مشقت روا رکھنا، اُلٹا لٹکا دینا،سخت مار پیٹ کرنا،کمر پر بھاری پتھر رکھ کرمشقت لینا،اپنی باندیوں سے پیشہ کرانا، غلاموں کے پیٹ چاک کر کےان کے اندر پاؤں رکھ کرحرارت حاصل کرنا،بھوکے درندوں کے سامنے پھینک کر ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھنا،اپنی افواج میں خطرے والے معاملات میںشرکت کرنے کے لیئےان کو استعمال کرنا جیسے غیر انسانی اور غیراخلاقی اقدام شامل ہیں۔
بالآخر اسلام آیا اور اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اس رواج کے خاتمے کے لیئےتدریجی اقدامات اختیار کئے، چنانچہ اب دُنیا سے قدیم غلامی کے اثرات تقریباَ نا پید ہیں۔ مگر ذہنی ،فکری اور اقتصادی غلامی کے جال پھیلانے کا مذموم رویہ بڑی استعماری قوتوں کے ہاں جاری ہے جو محض اپنی عسکری اور ٹیکنالوجیکل قوت کے باعث کمزور قوموں کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اسلام نے انسانی شرف کی توہین کے منابع ومصادرکو ختم کیا۔غلام بنانے کی صرف ایک صورت کو نا گزیرتاریخی مجبوری کی حالت میں باقی رکھا یعنی کفار کے ساتھ اعلانیہ جنگ اور اسکی اصل وجہ ادلے کا بدلہ ہے"۔ جسے قرآن کریم کی اصلاح میں (وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَ)برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے"(الشوریٰ 40) کہتے ہیں اس اعلانیہ جنگ میں ہاتھ آنے والے کفار کے متعلق بھی اسلامی شریعت میں چار پانچ طرح کے معاملات ہو سکتے ہیں۔
1) احسان کرتے ہو ئے بلا عوض چھوڑ دینا۔
2) عوض اور بدل لے کر چھوڑ دینا۔
3) جنگی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کر لینا۔
4) غلام بنا لینا۔
5) یا مصلحت ہو تو قتل کر دینا۔
صرف اس ایک صورت کے سوا غلام لونڈی بنا نا قطعاََ حرام ہے۔۔۔۔ اور پھر ان غلاموں کوجو حقوق اسلام نے دیئے ہیں کسی مذہب و ملت میں ان کا کو ئی تصور نہیں۔ حتٰی کہ خطاب و تکلم میں اُنھیں عَبُدِی اور اَمتی (میرا بندہ میری باندی) کہنا بھی ناجائز ہے بلکہ فَتَا یٰ اور فَتَاتِی کے الفاظ استعمال کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ بالخصوص مسلمان غلاموں کو"بھائی اور خادم قرار دیا گیا ہے اور کوئی ایسی ،مشقت لینے سے روک دیا گیا ہےجو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔کھانے، پینےاور لباس میں ان سے برابری کا معاملہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے [إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ](صحیح البخاری ‘الایمان ‘حدیث:30‘وصحیح مسلم‘ الایمان‘حدیث :1661)وہ تمھارے بھائی اور خادم ہیں ۔ اللہ نے اُنھیں تمھارا ماتحت بنا دیا ہے۔ تو جس کسی کا بھائی کسی کے ماتحت ہو توچاہیئے اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہےاُسے وہی پہنائے جو خود پہنتا ہےاور اُنھیں اُنکی طاقت سے زیادہ کسی کام کی تکلیف مت دو اور اگر مکلف کر و تو پھر ان کی مدد بھی کرو۔"
اسلام کے علاوہ دوسری تہذیبوں اور مذاہب میں غلامی کے اثرات کا مطالعہ کریں تو ایک حیرت انگیز نتیجہ سامنے آتا ہے۔قرآن مجید کی کسی ایک آیت میں بھی غلاموں کی خرید و فروخت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ البتہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کی طرف توجہ ضرور دلائی گئی ہے۔ جسکا نتیجہ یہ ہے کہ صر ف عہدِ نبوی کے 72 غزوات و سرایا میں6564 مخالفین قیدی یا غلام بنا ئے گئے اان میں سے6342 قیدیوں کونبی ﷺ نے اپنے اُسویٰ حسنیٰ کے اخلاقی پہلو کے باعث صحابہ کی مشاورت سےبغیر کسی معاوضے یا شرط کےآزادی کا پروانہ عطا فرمایا۔ اسن تمام قیدیوں میں سے صرف دو قیدی ایسے تھے جنھیں انکے سابقہ جرائم کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ 215 قیدیوں کے بارے میں تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔ مگر اسلام کی عفو عام کی تعلیم کے باعث یقین ہے کہ اس سے بھی حسنِ سلوک کا معاملہ کیا گیا ہو گا۔استشراق نےاسترقاق (غلام بنالینے) کے حوالے سے مسلمانوں مے بارے میں جو الزام تراشی کی ہے اس کی حقیقت مذکورہ اعداد و شمار سے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔ اس طرح باندیوں یا مِلُکِ یَمِینُ کے بارے میں شریعت کے قوائداس درجہ حکیمانہ ہیں کہ کو ئی احمق ہی ان پر اُنگشت نمائی کر سکتا ہے۔ عالمی تہذیبوں اور مذاہب کی تاریخ میں یہ شرف صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے غلامی کی مروجہ رسم کواس درجہ درست کیا کہ جس پر عمل درآمد نےوی صحت مند ورایت قائم کہ دوسری تہذیبوں اور مذاہب سے بھی اس کے اثرات کے خاتمے کا اظہار ملتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ غلام اس درجہ تمدنی ترقی کر گئےاور اُنھوں نے علمی سطح پروہ کمال حاصل کر لیا کی اسلامی ریاستوں کے بڑے بڑے مناصب ان کی تحویل میں آ گئے۔ عہدِ صحابی ، اُموی اور عباسی عہد میں اس کی تفصیلی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس دُنیا سے رُخصت ہو تے وقت بھی اس مظلوم طبقہ کے حقوق کی نگہداشت کی تعلیم دی ہے ۔اس ضمن میں حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد بھی رسمِ غلامی پر کسی قدر ضربِ کاری کی حیثیت رکھتا ہے[متى استعبدتم الناس وقد ولدتم اُمها تهم احراراً] تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیاہے حالا نکہ ان کی ماؤں نے اُنھیں آزاد جنا تھا"۔
اسلامی معاشرے میں غلاموں کو یہ شرف و احترام کس بنا پر حاصل ہوا؟ یہ اسلامی تعلیمات اورہدایات ہی کا نتیجہ تھا اور یہ ہدایات ایسی ابدی ہیں کہ اگر کسی دور میں پھر کسی وجہ سے غلامی کی کوئی صورت پیدا ہو ئی تو اسلام کی تعلیمات اس وقت بھی ان کی چارہ جو ئی کے لیئے موجود ہونگی۔ مثلاََ غلاموں کا آزاد کرنا اسلام میں بہت بڑی فضیلت اور اجرو ثواب کا کام ہے۔ مختلف تقصیرات کی تلافی اور کفارات میں غلاموں کا آزاد کرنا دین کا حصہ بنا دیا گیا ہے تاکہ یہ انسانی طبقہ بھی سر بلند ہو جائے۔ مثلاَ قسم توڑ دینا، بیوی سے ظہار کر لینا، رمضان کے دن میں مباشرت کرنا یا کفارہ قتل وغیرہ میں غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ہے بلکہ بعض اوقات تو حاکم کو بھی حق حاصل ہو تا ہے کہ کسی کے غلام کو جبرَا آزاد کرا دے۔یعنی جب مالک اس پر نا روا ظلم کرتا ہو۔ ایسے ہی کو ئی محرم رشتے دار کسی کا غلام بن جائے تو از خود آزاد ہو جائے گا۔بہر حال اسلامی تاریخ کا یہ زریں کارنامہ ہے کہ انسانی تاریخ میں موجود صدیوں کی اس قبیح رسم کو غیر محسوس انداز میں اسطرح ختم کیا کہ اب تقریباَ بالکل ناپید ہے۔ مزید برآں یہ کہ جو غلام اس وقت تھے ان کو مسلمانوں نے وہ عزت دی جو شائد ہی کہیں دی گئی ہو۔ اُنھیں آزاد مسلمانوں کے امام ، مفتی، قاضی، امیر لشکر اور حاکم تک بنا یا گیااور اُنھیں کلیدی مناصب تفویض کئے گئے ۔برصغیر کی اسلامی تاریخ میں خاندانِ غلاماں کے نام سے جو عہدِ حکومت ملتا ہےوہ اسلامی ریاست و معاشرت میں غلاموں کی صورتِ حال کی ایک روشن مثال ہے۔اب غیر مسلموں کا یہ شور وغوغا کرنا کہ اسلام غلام بنانے کا حامی و داعی ہےجہالت اور تعاصب کے سوا کچھ نہیں۔