تشریح:
اس قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ الوسطی سے مراد، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہے کیونکہ عطف مغائرت کا مقتضی ہے۔ لیکن علماء نے اس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کےالفاظ اصطلاحی طور پر’’شاذ قراءت،، کہلاتے ہیں جوحجت نہیں۔ قرآن کریم کےلیے ’’تواتر،، شرط ہے۔ اس قسم کی قراءت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نے کہا ہے احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو مگر بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا ہو جس کا انہیں علم نہ ہوسکا ہو۔یاان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہوگا کہ اس آیت کے الفاظ باقی اور حکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگرحضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اور اسی بیناد پراپنے مصحف میں درج کرالیا۔
(2) یا یہ عطف تفسیری ہو (یعنی توضیح کےلیے)
(3) یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قراءت سے بھی ہوتی ہے جس میں صلوۃ العصر کے الفاظ بغیر واؤ کے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (عون المعبود) لفظ (وسطی) مجمل ہے۔ ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی۔ لیکن دوسرے معنی ’’افضل و اعلی،، ہیں جیسے کہ آیت کریمہ (وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ) (البقرہ: 143) ’’اورایسے ہی ہم نے تمہیں افضل واعلی امت بنایا ہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔،، میں امت وسط سے مراد ’’افضل و اعلی امت،، ہے۔ اسی طرح (الصلوة الوسطی) کےمعنی ’’افضل و اعلی،، بنتے ہیں اور احادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصر ہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔