تشریح:
علامہ ابن بطال وغیرہ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت دلیل ہے کہ تعمیر مساجد اور ان کی آرائش ہمیشہ میانہ روی سے ہونی چاہیے۔ باوجود یکہ حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے باعث مال کی بہتات تھی مگر انہوں نے مسجد کو تبدیل نہیں کیا۔ صرف چھت کی شاخیں اور بوسیدہ ستون تبدیل کیے۔ ان کے بعد حضرت عثمان نےاس کی تنگ دامانی کے باعث اسے وسیع اور خوبصورت بنایا مگر اس میں کوئی غلو نہ تھا، اس کے باوجود بعض صحابہ نے ان پرتنقید کی۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان پہلا شخص ہے جس نے مساجد کو آراستہ کیا اور یہ صحابہ کا بالکل آخری دور ہے۔ مگر اکثر اہل علم فتنے کےخوف سےخاموش رہے۔ (عون المعبود) کچھ نے نقد بھی کیا۔