تشریح:
ان روایات کے علاوہ بھی اس مضمون میں بیت سی روایات کتب سنت میں موجود ہیں جبکہ کتاب اللہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مدح وستائش بصراحت آئی ہےمثلا: (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (التوبه:100) وہ مہاجرین وانصار جنہوں نے (سب سے پہلے ایمان لانے میں) سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن انداز میں ان کا اتباع کیا اللہ ان (سب) سے راضی ہوا اور وہ اس (اللہ) سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بیت بڑی کامیابی ہے۔ اور (لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ) (التوبه:٨٩-٨٨) ليكن رسول الله ﷺ نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ذریعے سے جہاد کیا انہی لوگوں کے لیے ساری بھلائیاں ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔اور سورۃالفتح میں ہے: (لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا) (الفتح:١٨) تحقیق اللہ راضی ہوگیا مومنوں سے جب کہ وہ آپ سے اس درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پس اس نے اس (خلوص) کو جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا اس نے ان پر اطمینان نازل کیا اور بدلے میں انہیں جلد ہی فتح دیدی ۔ بعد کے دور میں صحابہ کے مابین جو چپقلش ہوئی ہے وہ بشری تقاضون کے تحت ان کے اجتہادات کی بناء پر ہوئی۔ اللہ تعالی انہیں معاف کرنے والا ہے۔ اہل السنہ والجماعۃ قطعاً جائز نہیں سمجھتے کہ ان امور کو سرعام موضوع بحث بنایا جائے۔ رضي الله عنهم و أرضاهم۔