قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ)

حکم : صحیح 

4650. حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلَانٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ، وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ، وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ: قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ-، فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ سَعِيدٌ: مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ؟ قَالَ: يَسُبُّ عَلِيًّا، قَالَ: أَلَا أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ! ثُمَّ لَا تُنْكِرُ وَلَا تُغَيِّرُ! أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ- وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ، فَيَسْأَلَنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ-:- >أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ<... وَسَاقَ مَعْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ, خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ.

مترجم:

4650.

ریاح بن حارث کا بیان ہے کہ میں کوفہ کی مسجد میں فلاں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ (اشارہ ہے سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ کی طرف) اور ان کے پاس اہل کوفہ کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ تو سیدنا سعید بن زید بن عمرہ بن نفیل ؓ تشریف لائے۔ پس انہوں (مغیرہ) نے انکو مرحبا کہا اور خوش آمدید کہا اور پھر انہیں اپنی چارپائی کی پائنتی کی طرف بٹھا لیا۔ پھر اہل کوفہ میں سے ایک شخص آیا جس کا نام قیس بن علقمہ تھا۔ انہوں نے اس کا بھی استقبال کیا۔ پھر اس نے بدگوئی کی اور بدگوئی کی۔ سعید نے پوچھا یہ کسے گالیاں دے رہا ہے؟ کہا: سیدنا علی ؓ کو۔ تو سعید نے کہا: (تعجب ہے) میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سامنے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور آپ ہیں کہ اسے ٹوکتے ہی نہیں اور نہ سمجھاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے، اور مجھے کوئی ایسی نہیں پڑی کہ آپ ﷺ پر کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ نے نہ کہی ہو پھر کل جب آپ سے میری ملاقات ہو اور وہ مجھ سے پوچھ لیں: ”ابوبکر جنت میں ہے، عمر جنت میں ہے۔“ اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کیا۔ پھر کہا ان میں سے کسی ایک کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (جہاد میں) حاضر رہنا اور اس کے چہرے کا غبار آلود ہو جانا تمہاری ساری زندگی کے اعمال سے کہیں بہتر ہے خواہ تمہیں سیدنا نوح ؑ کی زندگی ہی کیوں نہ مل جائے۔