تشریح:
1) ایسے کھیل جو وقت اور سرمائے کے ضیاع کا باعث ہوں قطعاََ ناجا ئز ہیں۔ کھیل کا اصل مقصد ذہنی راحت اور جسمانی ورزش ہوتا ہے۔ اگر جائز کھیلوں میں بھی وقت ضائع ہوتا ہو تو وہ ناجائز ہو جائیں گے۔
2) ان صحیح احادیث اور مذکورہ اصول کی رو سے کرکٹ جیسے کھیل کی قطعاَ کو ئی اجازت نہیں۔ اور شرعا یہ ناجائز کھیل ہے، کیونکہ اس کھیل میں جس طرح بے دردی سے بے شمار لوگوں کا وقت ضائع ہوتا اور کیا جاتا ہے اس کی مثال کسی اور کھیل میں نہیں ملتی۔ مزید برآں کرکٹ جیسے کھیل میں نماز روزے کی کو ئی پر واہ ہوتی ہے نہ کسی اور دینی و دنیوی کام کا خیال۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کھیل بین الاقوامی سطح پر جوئے جیسی بد ترین لعنت اور کبیرہ گناہ کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ قومی اور ملکی سطح پر اس کے نقصانات اور مضر اثرات بے پناہ ہیں اور اس کے مقابلے میں فائدہ کچھ بھی نہیں۔ ایسا کھیل کھیلنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات ایک بندہ رحمان کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسے لغو اور بے فائدہ کام کی طرف دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا، بلکہ وہاں سے شرافت سے گزر جاتا ہے۔ قرآن مقدس میں ارشادِ باری تعالی ہے: (وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا)
رحمان کے بندے جب کسی لغو (دینی اور دنیوی اعتبار سے بے فائدہ) چیز سے گزرتے ہیں تو باعزت طور سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی خوبصور ت اور حساس شریعت اور ایسا پاکیزہ دین جس میں چوسر کھیلنے کی اجازت نہیں ہے، اس دینِ فطرت میں کرکٹ جیسے کھیل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟