تشریح:
فوائد ومسائل: (1)محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم کی حفاظت حدیث کے سلسلے میں کاوشوں کی داد دی جانی چاہیے، دیکھیے! رسول اللہ ﷺ کے مبارک الفاظ نقل کرنے میں کس قدر امانت اور دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک استاد نے [اللهم إِنِّي أَعُوذُبِكَ] بیان کیا ہے تو دوسرے نے جو سنا اور یاد رکھا وہی پیش کردیا ہے، یعنی [اللهم إِنِّي] کی بجائے صرف [أعُوذُ بِاللہِ] اور محدث نے دونوں کے الفاظ الگ الگ بعینہ ویسے ہی یاد رکھے اور بیان کیے۔(2) اس حدیث میں تعلیم ہے کہ بیت الخلا خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں ہر موقع پر یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ (3) خیال رہے کہ یہ الفاظ بیت الخلا سے باہر ہی پڑھے جائیں کیونکہ بیت الخلا، اللہ کے ذکر کا مقام نہیں ہے۔ اگر جنگل میں ہو تو کپڑا اتارنے سے قبل یہ الفاظ کہے جائیں۔ (4) محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعا کے الفاظ میں [الخبث] کو اگر ’’با‘‘ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ [خبيث] (مذکر) کی جمع ہے۔ اور [خبائث، خبيثة] مؤنث کی۔ مراد ہے جنوں میں مذکر و مؤنث افراد۔ اور اگر [خبث] کی ’’با‘‘ کو ساکن پڑھا جائے تو معنی ہوگا:’’اے اللہ! میں تمام مکروہات، محرمات، برائیوں اور گندگیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
الحکم التفصیلی:
وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وقد أخرجاه في الصحيحين من طرق عن عبد العزيز. وأخرجه مسلم، وأبو عوا نة في صحيحه (1/216) ، والترمذي، والدارمي من طرق عن حماد بن زيد بلفظه.
وتابعه عليه هشيم عن عبد العزيز: أخرجه مسلم، وأحمد (3/99) ، وابن أبي شيبة (1/1) .
وسعيد بن زيد: عند البخاري في الأدب المفرد (ص 100) ، وإسناده صحيح على شرط مسلم.
وحماد بن سلمة: عند ابن السني في اليوم والليلة (رقم 16) ، وهو صحيح أيضا. وشعبة في إحدى الروايتين عنه؛ أخرجه البخاري في الدعوات ، وأبو عوانة وابن السني. وأما رواية عبد الوارث (1) ؛ فتابعه عليها إسماعيل ابن عُلَية: عند مسلم وابن ماجه، وأحمد (3/101) ، ورواه النسائي لكن بلفظ حماد بن زيد. وأما رواية شعبة باللفظين؛ فأخرجه الترمذي (1/10) ، وأخرجه أحمد
(3/282) باللفظ الآخر، والبخاري وغيره باللفظ الأول كما سبق. وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري، وقد أخرجاه في الصحيحين من طرق عن عبد العزيز.
وأخرجه مسلم، وأبو عوا نة في صحيحه (1/216) ، والترمذي، والدارمي من طرق عن حماد بن زيد بلفظه. وتابعه عليه هشيم عن عبد العزيز: أخرجه مسلم، وأحمد (3/99) ، وابن أبي
شيبة (1/1) .
وسعيد بن زيد: عند البخاري في الأدب المفرد (ص 100) ، وإسناده صحيح على شرط مسلم. وحماد بن سلمة: عند ابن السني في اليوم والليلة (رقم 16) ، وهو صحيح أيضا.
وشعبة في إحدى الروايتين عنه؛ أخرجه البخاري في الدعوات ، وأبو عوانة وابن السني. وأما رواية عبد الوارث (1) ؛ فتابعه عليها إسماعيل ابن عُلَية: عند مسلم وابن ماجه، وأحمد (3/101) ، ورواه النسائي لكن بلفظ حماد بن زيد. وأما رواية شعبة باللفظين؛ فأخرجه الترمذي (1/10) ، وأخرجه أحمد (3/282) باللفظ الآخر، والبخاري وغيره باللفظ الأول كما سبق.
وهو الصواب إن شاء الله تعالى؛ لاتفاق أكثر الرواة عليها كما رأيت، ولأن شعبة قد وافقه في إحدى الروايتين عنه، وهي التي اعتمد عليها البخاري؛ فلم يرو الأخرى؛ فالأخذ بها أولى وأحرى. وأيضا فقد قال الإمام أحمد:
حماد بن زيد أثبت من عبد الوارث وابن علية والثقفي وابن عيينة .