تشریح:
1۔ اونچی آواز اور اونچی جگہ سے اذان کہنا مستحب ہے مگر آج کل کے لاؤڈ سپیکروں نے یہ کمی پوری کردی ہے۔
2۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اذان سے پہلے دعایئہ کلمات کسی طرح بھی اذان کا حصہ نہ تھے۔ بلکہ یہ عام طرح کی دعا ہوتی تھی۔ جس میں وہ کافی دیر سے مشغول ہوتے۔ اور صبح صادق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ قریش کی ہدایت کے لئے دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کو عربوں میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اس مخالفت کی وجہ سے عام عرب بھی اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ جب اللہ نے اس قبیلے کو اسلام قبول کرنے کی توفیق سے نوازا تو پھر فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، كما قال الحافظ، وقال ابن دقيق العيد: هذا الخبر حسن ) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن أيوب: ثنا إبراهيم بن سعد عن محمد ابن إسحاق عن محمد بن جعفر بن الزبير عن عروة بن الزبير عن امرأة من بني النجار.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ غير أن ابن إسحاق مدلس، وقد عنعنه- ولذلك قال النووي في المجموع (3/106) : إسناده ضعيف . فقول الحافظ في الفتح (2/81) : وإسناده حسن ! غير حسن. ولو سكت عليه كما فعل في التلخيص ؛ (3/175) ؛ لكان أحسن. نعم؛ هو حسن لغيره، فقد وجدت له طريقاً أخرى، كما سنذكره إن شاء الله تعالى.. والحديث أخرجه البيهقي (1/425) من طريق المصنف رحمه الله تعالى. قلت: ثم وجدث الحديث في سيرة ابن هشام (2/20) : قال ابن إسحاق: حدثني محمد بن جعفر بن الزبير... به. فاتصل السند- والحمد لله-، فهو حسن. وأما الطريق الآخر للحديث ؛ فهو ما أخرجه ابن سعد في الطبقات (8/307) قال: أخبرنا محمد بن عمر: ثني معاذ بن محمد عن يحيى بن عبد الله ابن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة قال: أخبرني من سمع النوارَ أم زيد بن ثابت تقول: كان بيتي أطول بيت حول المسجد؛ فكان بلال يؤذن فوقه- من أول ما أذن إلى أن بنى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مسجده-، فكان يؤذن- بعدُ- عدى ظهر المسجد؛ وقد رفع له شيء فوق ظهره. ومحمد بن عمر: هو الواقدي؛ ضعيف. وقال ابن دقيق في الإمام : هذا الخبر حسن (انظر تمام كلامه على الحديث فيما يأي من الكلام على الحديث (رقم 542/ص 35) ) . وفي الباب أحاديث أوردتها في الثمر المستطاب ؛ فلتراجع. وانظر المجموع أيضا.