تشریح:
علامہ مزی نے الاطراف میں کتا ب المراسیل میں حرف طاء میں لکھا ہے: اس روایت کوابوداؤد نے (کتاب المراسیل، با ب ماجاء في الاستفتاح، حدیث: 33 بتحقیق شعیب الأرناؤوط) میں ذکر کیا ہے اور ایسے ہی امام بیہقی نے المعرفۃ میں لکھا ہے۔،، (عون المعبود) شیخ البانی � فرماتے ہیں کہ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے مگر صحیح السند ہے۔ اور احناف کے نزدیک ویسے بھی مرسل، صحیح اور حجت ہوتی ہے۔ اور اس کی تائید صحیح بخاری کی اس روایت سےہوتی ہے: [كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ] (صحیح بخاری، حدیث: 740) یعنی حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنادایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پررکھے۔ جناب ہلب سےمروی ہے کہ [رأَیتُ النبیَّ ﷺ ینصرفُ عن یمینهِ وعن یسارہ ورأیتهُ قال یضع ھذا علی صدرہ] (مسند أحمد: 5؍ 226) ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ آپ نماز سےفارغ ہوکر دائیں بائیں دونوں اطراف سے پھرتے تھے اور آپ ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے تھے۔،، علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے غنیۃ الالمعی میں مسند احمد کی سند کو قوی لکھا ہے اور یہ کہ ا س میں کوئی علت قادحہ نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت وائل بن حجر سے مروی ہے کہ [صلیتُ مع رسولِ اللہِ ﷺ و وضع یدَہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ] (صحیح ابن خزیمة: 1؍ 243) ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں نماز پڑھی تو (دیکھا کہ) آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا اور سینے پررکھا۔،، شیخ البانی � کا تبصرہ یہ ہے کہ ’’یہ حدیث دیگر احادیث کی روشنی میں صحیح ہے اور سینے پر ہاتھ رکھنے کی دوسری احادیث اس کی شاہد ہیں۔،، نیز صحیح بخاری کی روایت پر کوئی غبار نہیں اورہر منصف مزاج مسلمان عملا یہ دیکھ سکتا ہے کہ ہاتھ بازو) یعنی کلائی اور کہنی کے درمیانی حصے) پر رکھنے سے ہاتھ کہاں تک جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ناف سے اوپر ہی رہیں گے لہذا سینے پر ہاتھ رکھنا ہی صحیح ہے یا زیادہ ناف سے اوپر رہیں۔ ناف سے نیچے والی روایات از حد ضعیف ہیں۔